میں نے کہا کہ راز چھپایا نہ جائے گا
بولے کسی سے منہ بھی لگایا نہ جائے گا
ہو ایک دو گھڑی کا تو ہم جی پہ سہہ بھی لیں
آٹھوں پہر کا غم تو اٹھایا نہ جائے گا
اس نامراد دل نے یہ ٹھانی ہے اے خیال
سوئی محبتوں کو جگایا نہ جائے گا
ہر غنچہ دل گرفتہ ہوا سن کے میری بات
چھوڑو بھی اب وہ قصہ سنایا نہ جائے گا
کس بھاری دل سے جاتے ہیں ہم اس کے در پہ آج
سر جھک گیا وہاں تو اٹھایا نہ جائے گا
کس کی نظر کے کانٹے پہ تلتا ہے برگ گل
تیرے سبک لبوں سے بتایا نہ جائے گا
ہر لالہ اس چمن کا ہے بے داغ آرزو
شبنم سے یہ چراغ جلایا نہ جائے گا
مسعود! باغ ہند میں کیا آ گئی بہار
ہم سے تو اس بہار میں گایا نہ جائے گا
مسعود حسین
No comments:
Post a Comment