کیا کر لے گی ہجر نصیبی، فرض کِیا
فرض کِیا، کیا جاں لے لے گی، فرض کیا
اتنی بھیڑ کہ جس میں خلقت کھو جائے
میں نے خود کو ایک اکیلی فرض کیا
تیری چپ کو اور کہاں تک سنتی میں
فرض کِیا، انکار حبیبی فرض کیا
میں نے اپنے ہونے کا انکار کیا
یعنی خود کو خود سے باغی فرض کیا
دنیا تو پہلے بھی غیر ضروری تھی
تیرے بعد تو بالکل ردی فرض کیا
عشق نے اپنے پنجے گاڑے آنکھوں پر
تم نے اس کو بھی کمزوری فرض کیا
اور رنگ پہن کر آتی پر مجبوری میں
کالا پہنا،۔ لال،۔ گلابی فرض کیا
ورنہ قید میں وقت کہاں کٹ سکتا تھا
میں نے اپنے ساتھ اسے بھی فرض کیا
فرح گوندل
No comments:
Post a Comment