سمٹوں تو صفر سا لگوں پھیلوں تو اک جہاں ہوں میں
جتنی کہ یہ زمین ہے اتنا ہی آسماں ہوں میں
میرے ہی دم قدم سے ہیں قائم یہ نغمہ خوانیاں
گلزار ہست و بود کا طوطیٔ خوش بیاں ہوں میں
مجھ ہی میں ضم ہیں جان لے دریا تمام دہر کے
قطرہ نہ تو مجھے سمجھ اک بحر بیکراں ہوں میں
نازاں ہے خد و خال پر اپنے بہت اگر تو سن
مجھ میں سبھی کے عکس ہیں آئینۂ جہاں ہوں میں
پہلے بھی میں قریب تھا اب بھی تِرے قریب ہوں
محسوس کر مجھے تِرا ہم زاد جسم و جاں ہوں میں
پھولوں سے پیار کر مگر مجھ کو نہ دلفگار کر
کانٹا بھی ہوں اگر تو کیا پھولوں کے درمیاں ہوں میں
اپنوں میں میں ہی غیر ہوں غیروں سے کیا گِلہ ظفر
اپنے ہی گھر میں ہوں مگر غیروں کے درمیاں ہوں میں
ظفر کلیم
No comments:
Post a Comment