Wednesday, 17 May 2023

اداکاری میں بھی سو کرب کے پہلو نکل آئے

 اداکاری میں بھی سو کرب کے پہلو نکل آئے

کہ فنکارانہ روتے تھے مگر آنسو نکل آئے

ہمیں اپنی ہی جانب اب سفر آغاز کرنا ہے

سو مثلِ نکہتِ گُل ہو کے بے قابو نکل آئے

یہی بے نام پیکرِ حُسن بن جائیں گے فردا کا

سخن مہکے اگر کچھ عشق کی خوشبو نکل آئے

اسی امید پر ہم قتل ہوتے آئے ہیں اب تک

کہ کب قاتل کے پردے میں کوئی دل جو نکل آئے

سمجھتے تھے کہ مہجوری کی ظلمت ہی مقدر ہے

مگر پھر اس کی یادوں کے بہت جگنو نکل آئے

دلوں کو جیت لینا اس قدر آسان ہی کب تھا

مگر اب شعبدے ہیں اور بہت جادو نکل آئے

سفر کی انتہا تک ایک تازہ آس باقی ہے

کہ میں یہ موڑ کاٹوں اس طرف سے تُو نکل آئے


پیرزادہ قاسم

No comments:

Post a Comment