کارِ دنیا نے م<را ہاتھ پکڑ رکھا ہے
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں
دور کہیں کسی جنگل میں
ایک سانپ اپنی محبوبہ کے قامت کو
تیری زلف سے تشبیہ دے رہا ہو گا
تمہارے گھر میں لگی ٹونٹی کا پانی
صبح دم
تمہارے منہ دھونے کے انتظار میں
رات بھر ایک ٹانگ پر کھڑا رہتا ہے
اور صبح اٹھ کر تم سے پہلے کوئی اور منہ دھو لیتا ہے
میری یہ سوچ
وہ بیل ہے جو دیوار پر چڑھ رہی ہو
اور
اس کی دیوار گر جائے
میں تجھ پر طویل نظم کہتا، مگر
تیری یادوں نے مرا ذہن جکڑ رکھا ہے
کارِ دنیا نے مرا ہاتھ پکڑ رکھا ہے
اویس راجا
No comments:
Post a Comment