فضا میں زہر گھولا ہم نے خود اب دم نکلتا ہے
اجل کا پیرہن اوڑھے ہر اک موسم نکلتا ہے
بھٹکتے کیوں ہیں مرہم کیلئے ہم دشت و صحرا میں
ہمارے زخم کے اندر ہی سے مرہم نکلتا ہے
ہماری کامرانی نے کِیا سورج کو بھی زخمی
کہ اک سایہ ہمارے جسم سے پر خم نکلتا ہے
ہمارے قلب کے اندر بہت ہی پاک جذبے ہیں
کبھی گنگوتری نکلی، کبھی زمزم نکلتا ہے
تبسم سے کسی کا کرب کیا جانے بھلا دنیا
کہ شعلوں کا سمندر بھی پس شبنم نکلتا ہے
یہ دنیا جس کی خاطر بھاگتا پھرتا ہے یہ انساں
تو پھر کیوں بطن مادر سے بہ چشم نم نکلتا ہے
تڑپ کر آگ اگلتی ہے زمیں اپنے دہانے سے
تو کرتا ابر بھی اب گریہ و ماتم نکلتا ہے
زمانہ کیا بھلا توقیر جانے دوسرے کا غم
اسے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا دم نکلتا ہے
توقیر زیدی
No comments:
Post a Comment