Saturday, 20 May 2023

فضا میں زہر گھولا ہم نے خود اب دم نکلتا ہے

 فضا میں زہر گھولا ہم نے خود اب دم نکلتا ہے

اجل کا پیرہن اوڑھے ہر اک موسم نکلتا ہے

بھٹکتے کیوں ہیں مرہم کیلئے ہم دشت و صحرا میں

ہمارے زخم کے اندر ہی سے مرہم نکلتا ہے

ہماری کامرانی نے کِیا سورج کو بھی زخمی

کہ اک سایہ ہمارے جسم سے پر خم نکلتا ہے

ہمارے قلب کے اندر بہت ہی پاک جذبے ہیں

کبھی گنگوتری نکلی، کبھی زمزم نکلتا ہے

تبسم سے کسی کا کرب کیا جانے بھلا دنیا

کہ شعلوں کا سمندر بھی پس شبنم نکلتا ہے

یہ دنیا جس کی خاطر بھاگتا پھرتا ہے یہ انساں

تو پھر کیوں بطن‌ مادر سے بہ چشم نم نکلتا ہے

تڑپ کر آگ اگلتی ہے زمیں اپنے دہانے سے

تو کرتا ابر بھی اب گریہ و ماتم نکلتا ہے

زمانہ کیا بھلا توقیر جانے دوسرے کا غم

اسے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا دم نکلتا ہے


توقیر زیدی

No comments:

Post a Comment