Saturday, 20 May 2023

فریب نو کے بھنور میں اتارتا ہے مجھے

 فریبِ نو کے بھنور میں اُتارتا ہے مجھے 

یہ کون پچھلے پہر پھر پکارتا ہے مجھے 

شکستہ حال ہوں رنج و الم سے چُور ہوں میں 

نگاہِ لُطف سے اب کیا سنوارتا ہے مجھے 

نظر پہ اپنی چڑھاتا ہوں جس قدر اس کو 

اسی قدر وہ نظر سے اتارتا ہے مجھے 

میں کب کا ڈُوب چکا ہوں اسے خبر ہی نہیں 

جو ساحلوں سے ابھی تک پکارتا ہے مجھے 

اسی کی یاد ہے میری حیات کا حاصل 

جو بے نیاز تغافل سے مارتا ہے مجھے 

میں صلح و امن کا شیدائی ہوں مِرے رہبر 

فساد و فتنہ پہ تُو کیوں اُبھارتا ہے مجھے 

ملا ہے مُدتوں کے بعد کچھ غرض ہو گی 

کس انکسار سے دیکھو نہارتا ہے مجھے 

اسے میں خاص کرم میں شمار کرتا ہوں 

جو تُو مراحلِ غم سے گزارتا ہے مجھے 

وہ چاہتا ہے گُہر یاب ہو کے اُبھروں میں 

سمندروں کی جو تہ تک اتارتا ہے مجھے 

پُونم کی رات کا یہ فیضِ نور افشاں چاند

کسی حسین خطا پر اُبھارتا ہے مجھے


مہندر پرتاب چاند

No comments:

Post a Comment