خون کے دیپ فصیلوں پہ جلا رکھے ہیں
اپنے انداز زمانے سے جدا رکھے ہیں
دل میں امید نہیں، لب پہ کوئی بات نہیں
ہاتھ پھر بھی تو دعاؤں کو اٹھا رکھے ہیں
گُھل رہا ہے کہ وہ اوروں کو بتائے کیسے
خواب گُونگے نے بھی آنکھوں میں بسا رکھے ہیں
یہ الگ بات کہ اظہار تلک آ نہ سکے
دل میں جذبات مگر بیش بہا رکھے ہیں
اپنی عمروں کا لہو دے کے انہیں پالا ہے
ہم نے تو درد بھی بیٹوں سے سوا رکھےہیں
کوئی وعدہ ہی نہیں ہے کہ کوئی آئے گا
جانے کیوں راہ میں دل پھول کھلا رکھے ہیں
کتنے ڈرپوک ہیں عرفی! یہ قبیلے والے
گزرے وقتوں کے سبھی قرض اٹھا رکے ہیں
سمیع اللہ عرفی
No comments:
Post a Comment