وہ ایک پل
میرے صورت گر
تمہیں شاید معلوم نہیں
چاک پہ گھومتے ہوئے
تمہیں دیکھنے کے لیے
میری آنکھیں ایک پل کے لیے تمہاری جانب اٹھیں
اور پتھر ہو گئیں
تمہاری بے نیازی اور گریز کو دیکھ کر
میری پلکوں پر لرزتے آنسو منجمد ہو گئے
میرے ہونٹوں پہ جمی پپڑی
سسکی بن گئی
نارسائی و لا حاصلی کے خوف نے
میری آرزوؤں میں زردیاں گھول دیں
کاش تم نے مجھے ایک نظر
چاک پر گھومتے ہوئے
محبت سے دیکھا ہوتا
تمہاری ایک نظر سے
میری پتھر آنکھوں میں بصارت لوٹ آتی
میرے ہونٹوں پہ
ملن کے گیت کھل اٹھتے
میری سانسیں بحال ہو جاتیں
میں چاک سے اترتی
تو زندگی میرا سواگت کرتی
مجھے گلے سے لگاتی
میری آرزوؤں میں قوسِ قزح کے رنگ بھر دیتی
میرے صورت گر
تم مجھ پرایک پل کے لیے ہی نظرِ التفات ڈالتے
تو میرے سارے خدشات کافور ہو جاتے
مدیحہ مغل
No comments:
Post a Comment