Saturday, 20 May 2023

ہجر کے ماروں پہ ہے نشتر چلائے الفراق

 ہجر کے ماروں پہ ہے نشتر چلائے الفراق 

کیوں مِرے مولا! مِرے دل کو جلائے الفراق

شاہ زادہ چل دیا جب، شاہ زادی چیخ کر

بال اپنے نوچ کر کہتی تھی؛ ہائے الفراق

جا بُلا عمّو کو اپنے، ہنس کے کہتا تھا لعیں

اور سکینہؑ رو کے دیتی تھی صدائے الفراق

اک جواں لڑکے کے بالوں میں اترتی چاندنی

دے رہی ہم کو ہے خبر انتہائے الفراق

بین کرتی تھی لحد پر ایک ماں سر پیٹ کر؛

اے مِرے بیٹے! مجھے ہر شب ستائے الفراق

اس جدائی نے کوئی شاہ و گدا چھوڑا نہیں

وائے، زین العابدیںؑ کو خوں رُلائے الفراق

باپ کے لاشے پہ غش کھا کر گرا اک نوجواں

چیختی ہے ماں اسے سینے لگائے الفراق

درد سے مانوس ہو کر ایک دن لاریب نے

زیست میں شامل کیے دو لفظ، ہائے الفراق


لاریب کاظمی

No comments:

Post a Comment