عارفانہ کلام حمد نعت مقبت
ٹکڑے ہو ہو کے سرِ دشت بکھرنے کے لیے
ہم تو آئے ہیں یہاں آپ پہ مرنے کے لیے
لیجیۓ ہم سُمِ اسپاں سے کچل جاتے ہیں
آپ زحمت نہ کریں دفن بھی کرنے کے لیے
کھینچ لائی ہے یہاں، غازۂ خونیں کی کشش
آ گئے ہم بھی یہاں بننے سنورنے کے لیے
اس جلالیؑ کو اے مشکیزۂ بے آب سنبھال
نہر کو خشک نہ کر دے تجھے بھرنے کے لیے
آسماں آیا تھا پھیلائے ہوئے دامنِ عرش
سر ہی راضی نہ تھا نیزے سے اترنے کے لیے
یہ کھلے بال، یہ بازار، یہ لوگوں کا ہجوم
اک خدا چاہیے اس رہ سے گزرنے کے لیے
زخم گہرا جو مِری پُشت پہ زنجیر سے ہے
زخم اک اور لگا لوں اسے بھرنے کے لیے
خنکیِٔ اشکِ عزا،۔ حدتِ جوشِ ماتم
اور کیا چاہیے مٹی کو نکھرنے کے لیے
عارف امام
No comments:
Post a Comment