Thursday, 18 May 2023

مجرئی جوہر قرطاس و قلم کھلتے ہیں

 عارفانہ کلام حمد نعت مقبت


مجرئی جوہرِ قرطاس و قلم کُھلتے ہیں

طبل بجتا ہے قلمرو میں عَلم کھلتے ہیں

آمدِ ماہِ محرم سے گھروں میں اپنے 

درِ فردوس کی صورت درِ غم کھلتے ہیں

یہ بھی اسرارِ دعا بر سرِ مجلس ہی کھلے

لب کھلیں یا نہ کھلیں بابِ کرم کھلتے ہیں

غنچہ و گُل بھی کوئی چشمِ عزا ہیں گویا

بند ہوتے ہیں جو بے آب تو نم کھلتے ہیں

شرحِ خونِ شہداء تشنۂ مضموں ٹھہری

رنگ احساس کے الفاظ میں کم کھلتے ہیں

دل میں رستہ ہو تو اک شب کی مسافت ہے بہت

سر میں سودا ہو تو پھر نقشِ قدم کھلتے ہیں

رخصتِ حُر بھی عجب سلسلۂ رخصت ہے

معنئ جستِ غزالاں پسِ رَم کھلتے ہیں

اک طرف جادۂ رَے ایک طرف راہِ اجل

زیست کرنے کے سلیقے اُسی دَم کھلتے ہیں

دشتِ تنہائئ شبیرؑ سے تا شہرِ رسولﷺ

راہ کیا کھلتی ہے تاریخ کے خَم کھلتے ہیں

لشکرِ کم نظراں دیکھ سکوتِ اصغر

بے زبانی میں بھی اسلوبِ حشم کھلتے ہیں

ان بندھے ہاتھوں کو محتاجِ رسائی نہ سمجھ

انہیں ہاتھوں سے تو اسبابِ نعم کھلتے ہیں

ہم بھی کم مایہ نہیں ہم بھی انیسی ہیں نصیر

کوئی ہم سا ہی مقابل ہو تو ہم کھلتے ہیں


نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment