Wednesday, 17 May 2023

کہیں بل کھاتی اور کہیں سیدھی یہ پگڈنڈی

 پگڈنڈی کا سفر 


کہیں بل کھاتی اور

کہیں سیدھی

یہ پگڈنڈی کہیں دور

سفر کو جاتی ہے

دو راہی ساتھ ہو لیتے ہیں

پھر راستے بنتے جاتے ہیں

قوسِ قزح میں مدغم

سارے رنگ الگ الگ پھیلتے ہیں

آنکھوں میں امید کی

جوت جگا کر

پھر سمٹ جاتے ہیں

ہمسفر منزل کو پانے کی

دُھن میں

بادل کی سیڑھی پر چڑھ کر

چار سُو بکھرتی دھنک کے پار

جھانکتے ہیں

پر اس پگڈنڈی کا انت

نہیں ملتا

جانے کہاں کو جاتی ہے


سلمیٰ جیلانی 

No comments:

Post a Comment