پگڈنڈی کا سفر
کہیں بل کھاتی اور
کہیں سیدھی
یہ پگڈنڈی کہیں دور
سفر کو جاتی ہے
دو راہی ساتھ ہو لیتے ہیں
پھر راستے بنتے جاتے ہیں
قوسِ قزح میں مدغم
سارے رنگ الگ الگ پھیلتے ہیں
آنکھوں میں امید کی
جوت جگا کر
پھر سمٹ جاتے ہیں
ہمسفر منزل کو پانے کی
دُھن میں
بادل کی سیڑھی پر چڑھ کر
چار سُو بکھرتی دھنک کے پار
جھانکتے ہیں
پر اس پگڈنڈی کا انت
نہیں ملتا
جانے کہاں کو جاتی ہے
سلمیٰ جیلانی
No comments:
Post a Comment