عارفانہ کلام حمد نعت مقبت سلام
سِناں کی نوک پہ آغاز اک خطاب ہوا
ستم کی ہار ہوئی، صبر کامیاب ہوا
دمشق و کوفہ و یثرب میں جو چھپایا گیا
وہ بُغض آ کے سرِ دشت بے نقاب ہوا
اسی کے نور کا پہرہ تھا سبز خیموں پر
لبِ فرات جو مہتاب محوِ خواب ہوا
ہمیشگی کا پیمبر تلاشتی تھی اذاں
مِرے حسینؑ کے اکبر کا انتخاب ہوا
سنا ہے تین تھیں اس ایک تیر کی نوکیں
وہ جس کی ضرب سے دو نیم اک گلاب ہوا
وہ شام اتری تو مصحف پہ چل گیا خنجر
وہ شام ڈھل گئی، قرآن بے حجاب ہوا
بھرا ہوا تھا ستاروں سے شاہؑ کا خیمہ
بُجھا چراغ جہاں رشکِ ماہتاب ہوا
غلام ذہن میں چمکی جو حرّیت کی کرن
سیاہ کاروں میں اک شخص آفتاب ہوا
کسی کی پیاس نے دریا کو کر لیا تسخیر
کوئی گَلا کسی خنجر پہ فتح یاب ہوا
یہ روشنی ہے محرّم سے میرے سینے میں
بُجھا کے پیاس مِرے دل کو اضطراب ہوا
شناخت کے سبھی معیار رہ گئے پیچھے
حسینی ہوتا گیا جو بھی ہمرکاب ہوا
علیؑ کے لعل کی زخمی جبیں پہ لکھا تھا
"فقط علیؑ ہی زمانے میں کامیاب ہوا"
عدنان محسن
No comments:
Post a Comment