عارفانہ کلام حمد نعت مقبت مرثیہ
ایک میرے جد، وہ حضرتِ فاخر سے ذی وقار
میرے لیے شرف تو بزرگوں کا افتخار
ماہر تھے فنِ شعر میں ماہر کی یادگار
مداح ان کے لاکھ تو شاگرد بے شمار
چلتی تھی ان کی تیغِ قلم ہر زمیں میں
جبریل فن کے ڈھونڈتی تھی پر زمیں میں
دلگیر سے ہوئی اس امامت کی ابتدا
پہلے بھی مرثیہ تھا مگر یہ مزہ نہ تھا
پھر فیض ہے فصیح و خلیق و ضمیر کا
وہ جن سے مرثیہ کو ملا دبدبہ نیا
بخشا صِلہ انہیں یہ جنابِ امیرؑ نے
چمکا دئیے ہیں نام انیس و دبیر نے
دونوں نے مرثیے کو عجب مرتبا دیا
جیسے گدا کو خلعتِ شاہی پنہا دیا
چیونٹی کو اوج دے کے سلیمان بنا دیا
ایک بوریا نشیں کو فلک پر بٹھا دیا
یہ نظم صنفِ شعر گوئی کی سرتاج ہو گئی
گویا برّاقِ فکر کو معراج ہو گئی
ساحر لکھنوی
سید قائم مہدی نقوی
No comments:
Post a Comment