نوکِ سناں پہ علم و ہنر بولتا رہا
دھڑ سے الگ ہوا بھی تو سر بولتا رہا
اک عمر تیری چاپ کو ترسے ہیں کان بھی
اک عمر تیرے نام پہ گھر بولتا رہا
اک دن میں بازیاب ہوا اپنی قید سے
آسیب میرے منہ پہ مگر بولتا رہا
وہ شخص میری آنکھ کی بینائی لے گیا
جس کو میں اپنا نورِ نظر بولتا رہا
پنچھی شکاریوں کا غضب جھیلتے رہے
سائے کے ساتھ ساتھ شجر بولتا رہا
مجھ کو پھر اپنی دردِ اذاں روکنی پڑی
وہ میرے ساتھ وقتِ سحر بولتا رہا
کاٹوں گا میں زبان خود اس بد زبان کی
ساجد میں اپنے حق میں اگر بولتا رہا
ساجد رضا
No comments:
Post a Comment