تارنامے
مجھ کو بیخود کر رہی تیری صدا
دل کو موجیں بخشتی ہے برملا
تیری ہر آواز دے مستی مجھے
راز یہ تیرا نہیں ملتا کسے
نام نامی سب بُھلا دیتی ہے تُو
جام مئے جیسے پلا دیتی ہے تُو
درد کے افلاک سے آئی ہے تُو
مجلسِ عشّاق سے آئی ہے تُو
سندھی کلام؛ سچل سرمست
خواجہ عبدالوہاب فاروقی
اردو ترجمہ؛ مقصود گل
No comments:
Post a Comment