طوفان تھم چکا ہے مگر جاگتے رہو
کس وقت کی ہے کس کو خبر جاگتے رہو
شعلے بجھا کے ہم سفرو مطمئن نہ ہو
پوشیدہ راکھ میں ہے شرر جاگتے رہو
اب روشنی میں بھی ہے اندھیروں کا مکر و فن
کیا اعتبار شام و سحر جاگتے رہو
ہر ذرۂ چمن میں ہے لعل و گہر کا رنگ
لٹنے نہ پائیں لعل و گہر جاگتے رہو
اب رات خود ہے اپنی سیاہی سے بیقرار
آواز دے رہی ہے سحر جاگتے رہو
ساغر یہ غم کی رات یہ راہوں کے پیچ و خم
دشمن بھی ہے شریک سفر جاگتے رہو
ساغر مہدی
No comments:
Post a Comment