گرتے گرتے سنبھل رہا ہوں میں
دسترس سے نکل رہا ہوں میں
دھوپ کا بھی عجب تماشہ ہے
اپنے سائے پہ چل رہا ہوں میں
گفتگو ہے میری گلابوں سی
شخصیت میں کنول رہا ہوں میں
دھوپ جب سے ملی ہے چہرے پر
رفتہ رفتہ پگھل رہا ہوں میں
گرد میرے ہے وحشتوں کا ہجوم
ایک جنگل میں پل رہا ہوں میں
ایک ہچکی کا کھیل ہے ماہر
اس قدر کیوں مچل رہا ہوں میں
ندیم ماہر
No comments:
Post a Comment