Tuesday, 16 May 2023

گرتے گرتے سنبھل رہا ہوں میں

 گرتے گرتے سنبھل رہا ہوں میں

دسترس سے نکل رہا ہوں میں

دھوپ کا بھی عجب تماشہ ہے

اپنے سائے پہ چل رہا ہوں میں

گفتگو ہے میری گلابوں سی

شخصیت میں کنول رہا ہوں میں

دھوپ جب سے ملی ہے چہرے پر

رفتہ رفتہ پگھل رہا ہوں میں

گرد میرے ہے وحشتوں کا ہجوم

ایک جنگل میں پل رہا ہوں میں

ایک ہچکی کا کھیل ہے ماہر

اس قدر کیوں مچل رہا ہوں میں


ندیم ماہر

No comments:

Post a Comment