لوٹ کے وہ آئیں گے اک دن دل میرا یہ کہتا ہے
میں نے ان کو چاند کہا تھا، ڈوبا چاند نکلتا ہے
کانوں میں ہے سُر کا میلہ جب سے وہ آواز سنی ہے
آنکھوں میں ہیں رنگ دھنک کے جب سے ان کو دیکھا ہے
دن کو میں نے چاند چُھؤا ہے، رات کو سُورج چُوما ہے
میری بات کو جُھوٹ نہ سمجھو مجھ پر عشق کا سایہ ہے
ہم لفظوں کے جوڑنے والے صرف محبت مانگتے ہیں
سر پہ ہمارے تاج رکھیں سب ہم نے یہ کب چاہا ہے
دانش جو رگِ جاں میں رواں ہے پُھول میں خُوشبو، نَے میں صدا
اس کو کسی نے کب دیکھا ہے، اس کو بس محسوس کیا ہے
عقیل دانش
No comments:
Post a Comment