Sunday 21 May 2023

آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے

 آہوں کے بسیرے ہیں ارمانوں کی بستی ہے

کہتے ہیں جسے ہستی ادھ سُلجھی پہیلی ہے

ناوک تِری باتوں کے کچھ ایسے لگے دل پر

اب سانس بھی لیتا ہوں تو روح نکلتی ہے

اک جسم تھا جو میرا وہ خاک ہوا کب کا

اک روح بچی تھی جو اب وہ بھی پگھلتی ہے

گردش میں ہر اک شے ہے کیا ڈھونڈ رہے ہیں سب

کیوں وقت پِھسلتا ہے،۔ کیوں عمر سرکتی ہے

کافر کے لیے جیسے دنیا ہی میں جنت ہو

مؤمن کے لیے دنیا اک کانٹوں کی بستی ہے

انساں کو لُبھاتی ہے دنیا کی ہے رنگینی

باہر سے چمکتی ہے اندر سے جُھلستی ہے

ہے کس کی حرارت سے تپتی ہیں مِری سانسیں

سینے میں مِرے جیسے اک آگ سُلگتی ہے

افلاک اُگلتا ہے روحوں کے سمندر کو

توقیر زمیں سب کے جسموں کو نِگلتی ہے


توقیر زیدی

No comments:

Post a Comment