یہ ہم فقیر جو کم کم دھمال ڈالتے ہیں
زمین ہلتی ہے جس دم دھمال ڈالتے ہیں
تمہیں کنارے سے دریا دکھانے کا مطلب
یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم دھمال ڈالتے ہیں
ہمارے بخت فقیروں کی انگلیوں پہ نثار
جہاں زمرد و نیلم دھمال ڈالتے ہیں
اگر یہ وصل بھی سرشار کر نہیں پایا
تو ایسا کرتے ہیں جانم، دھمال ڈالتے ہیں
اک ایسا وقت بھی آتا ہے ہم فقیروں پر
درونِ حلقۂ ماتم دھمال ڈالتے ہیں
عباس تابش
No comments:
Post a Comment