Sunday, 21 May 2023

یہ ہم فقیر جو کم کم دھمال ڈالتے ہیں

 یہ ہم فقیر جو کم کم دھمال ڈالتے ہیں

زمین ہلتی ہے جس دم دھمال ڈالتے ہیں

تمہیں کنارے سے دریا دکھانے کا مطلب

یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم دھمال ڈالتے ہیں

ہمارے بخت فقیروں کی انگلیوں پہ نثار

جہاں زمرد و نیلم دھمال ڈالتے ہیں

اگر یہ وصل بھی سرشار کر نہیں پایا

تو ایسا کرتے ہیں جانم، دھمال ڈالتے ہیں

اک ایسا وقت بھی آتا ہے ہم فقیروں پر

درونِ حلقۂ ماتم دھمال ڈالتے ہیں


عباس تابش

No comments:

Post a Comment