اے ماہ جبیں شکل دکھانے کے لیے آ
بے نور ہے دل شمع جلانے کے لیے آ
ماضی کے چراغوں کو جلانے کے لیے آ
سینے میں وہی آگ لگانے کے لیے آ
لے جا مِری ترسی ہوئی آنکھوں کی دعائیں
مایوس نہ کر آس بندھانے کے لیے آ
بکھرائے ہوئے دوش پہ نکھری ہوئی زلفیں
بگڑی ہوئی تقدیر بنانے کے لیے آ
ہر موجِ نفس کو مِری اے لعلِ نگاریں
افسانہ در افسانہ بنانے کے لیے آ
مچلی تھیں کبھی جس سے جوانی کی ترنگیں
پائل کی وہ جھنکار سنانے کے لیے آ
اے تجھ پہ فدا زمزمۂ صبحِ بہاراں
اِک روز تو بالیں پہ، جگانے کے لیے آ
وہ چاند وہ سبزہ، وہ تِرے قُرب کے لمحے
سب خواب تھے یہ یاد دلانے کے لیے آ
چُھپ چھپ کے یہ آنا بھی تِرا حُسنِ کرم ہے
ممکن ہو تو اک روز نہ جانے کے لیے آ
مُدت سے ہوائیں بھی تِری مجھ سے خفا ہیں
آہٹ ہی کبھی اپنی سنانے کے لیے آ
صفدر حسین زیدی
No comments:
Post a Comment