Monday, 22 May 2023

اے ماہ جبیں شکل دکھانے کے لیے آ

 اے ماہ جبیں شکل دکھانے کے لیے آ

بے نور ہے دل شمع جلانے کے لیے آ

ماضی کے چراغوں کو جلانے کے لیے آ

سینے میں وہی آگ لگانے کے لیے آ

لے جا مِری ترسی ہوئی آنکھوں کی دعائیں

مایوس نہ کر آس بندھانے کے لیے آ

بکھرائے ہوئے دوش پہ نکھری ہوئی زلفیں

بگڑی ہوئی تقدیر بنانے کے لیے آ

ہر موجِ نفس کو مِری اے لعلِ نگاریں

افسانہ در افسانہ بنانے کے لیے آ

مچلی تھیں کبھی جس سے جوانی کی ترنگیں

پائل کی وہ جھنکار سنانے کے لیے آ

اے تجھ پہ فدا زمزمۂ صبحِ بہاراں

اِک روز تو بالیں پہ، جگانے کے لیے آ

وہ چاند وہ سبزہ، وہ تِرے قُرب کے لمحے

سب خواب تھے یہ یاد دلانے کے لیے آ

چُھپ چھپ کے یہ آنا بھی تِرا حُسنِ کرم ہے

ممکن ہو تو اک روز نہ جانے کے لیے آ

مُدت سے ہوائیں بھی تِری مجھ سے خفا ہیں

آہٹ ہی کبھی اپنی سنانے کے لیے آ


صفدر حسین زیدی

No comments:

Post a Comment