جھک گئی گردن وفا کی وہ مقام آ ہی گیا
عقل منہ تکتی رہی اور عشق کام آ ہی گیا
ہلکی ہلکی مسکراہٹ کی حسیں لہروں کے ساتھ
آج ان نازک لبوں پر میرا نام آ ہی گیا
گوشہ گوشہ بن گیا اک محشرستانِ ظہور
دل کے آئینے میں وہ ماہِ تمام آ ہی گیا
اٹھ گیا انساں کے دل سے بندہ و آقا کا فرق
آدمی کو آدمی کا احترام آ ہی گیا
دن کو دنیا کے بکھیڑے، رات کو ان کا خیال
صبح کا بھٹکا مسافر وقتِ شام آ ہی گیا
وہ رہے بیزار ہم کیوں نازِ بے جا کھینچتے
دل کی خود داری میں رنگِ انتقام آ ہی گیا
تھے کہیں تسبیح کے پھندے، کہیں زلفوں کے جال
طائرِ آزاد صفدر! زیرِ دام آ ہی گیا
صفدر حسین زیدی
No comments:
Post a Comment