Friday, 19 May 2023

گاؤں سب نقل مکانی کی طرف دیکھتا تھا

 گاؤں سب نقل مکانی کی طرف دیکھتا تھا

اور میں پیاسا تھا پانی کی طرف دیکھتا تھا

اس کی انگلی میں کوئی اجنبی انگوٹھی تھی

اور میں اس کی نشانی کی طرف دیکھتا تھا

صلح کر لی ہے عدو ملک سے آخر شہ نے

سپہ سالار جو رانی کی طرف دیکھتا تھا

کس کڑی آن سے استادہ تھا لکڑ ہارا

بوڑھا پیڑ اس کی جوانی کی طرف دیکھتا تھا

اشک فنکار کی آنکھوں میں حقیقی تھے مگر

منہمک مجمع کہانی کی طرف دیکھتا تھا

خواب ہی اتنا سنہرا تھا جو بکنے آیا

کون ارزانی، گرانی کی طرف دیکھتا تھا

درد کو ہم بھی تکلم سے پرے رکھتے تھے

تُو بھی بس شعلہ بیانی کی طرف دیکھتا تھا

تجھ کو اس وقت کا اعظم بھلا کیوں یاد رہے

تُو کہاں قیس کے ثانی کی طرف دیکھتا تھا


اکرام اللہ اعظم

No comments:

Post a Comment