گاؤں سب نقل مکانی کی طرف دیکھتا تھا
اور میں پیاسا تھا پانی کی طرف دیکھتا تھا
اس کی انگلی میں کوئی اجنبی انگوٹھی تھی
اور میں اس کی نشانی کی طرف دیکھتا تھا
صلح کر لی ہے عدو ملک سے آخر شہ نے
سپہ سالار جو رانی کی طرف دیکھتا تھا
کس کڑی آن سے استادہ تھا لکڑ ہارا
بوڑھا پیڑ اس کی جوانی کی طرف دیکھتا تھا
اشک فنکار کی آنکھوں میں حقیقی تھے مگر
منہمک مجمع کہانی کی طرف دیکھتا تھا
خواب ہی اتنا سنہرا تھا جو بکنے آیا
کون ارزانی، گرانی کی طرف دیکھتا تھا
درد کو ہم بھی تکلم سے پرے رکھتے تھے
تُو بھی بس شعلہ بیانی کی طرف دیکھتا تھا
تجھ کو اس وقت کا اعظم بھلا کیوں یاد رہے
تُو کہاں قیس کے ثانی کی طرف دیکھتا تھا
اکرام اللہ اعظم
No comments:
Post a Comment