کسی ثبوت کی اس کو تلاش تھی ہی نہیں
میں مر گیا تھا کہیں میری لاش تھی ہی نہیں
یقین کون کرے، آئینے سے نکلا ہوں
کہ میرے چہرے پہ کوئی خراش تھی ہی نہیں
مکانِ زیست کی تعمیر جیسے تیسے ہوئی
کسی بھی لمحے کی کوئی تراش تھی ہی نہیں
طلسم خواب میں خوفِ بلا سے کچھ نہیں ہو گا
سزا سے اور فقط میری سزا سے کچھ نہیں ہو گا
تم اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ بند ہی رکھنا
ہوا جیسی بھی ہو پیارے ہوا سے کچھ نہیں ہو گا
کوئی بھی بات ہو کیسی بھی ہو وہ کچھ نہیں ہوتی
ہمارے شہر میں اونچی صدا سے کچھ نہیں ہو گا