اوروں کو تو پھولوں کے کئی رنگ دِکھائے
ہم لوگوں کو دنیا نے فقط سنگ دکھائے
ہم نے بھی بہت اس کو نئے پن سے پکارا
اس نے بھی محبت کے نئے ڈھنگ دکھائے
وہ آئے، ہمیں رنجش و نفرت ہی سجھائے
وہ آئے، ہمیں دل کا وہی زنگ دکھائے
اوروں کو تو پھولوں کے کئی رنگ دِکھائے
ہم لوگوں کو دنیا نے فقط سنگ دکھائے
ہم نے بھی بہت اس کو نئے پن سے پکارا
اس نے بھی محبت کے نئے ڈھنگ دکھائے
وہ آئے، ہمیں رنجش و نفرت ہی سجھائے
وہ آئے، ہمیں دل کا وہی زنگ دکھائے
کوچۂ یار سے نکل آیا
یعنی آزار سے نکل آیا
تُو جُھکانا ہی چاہتا تھا کہ میں
تیرے دربار سے نکل آیا
پاؤں رکھا تھا اس نے کمرے میں
پُھول دیوار سے نکل آیا
سکون و صبر لٹا ہوش کا خزانہ گیا
تمہیں بتاؤ خدارا! کہ میرا کیا نہ گیا
گرائی برقِ نظر سوز بارہا لیکن
مذاقِ دِید ہمارا شکست کھا نہ گیا
خدا کی ذات پہ انساں نے کر دئیے حملے
فریبِ عقل سے جب آپ میں رہا نہ گیا
کہیں عذاب، کہیں پر ثواب لکھتے ہیں
فرشتے، روز ہمارا حساب لکھتے ہیں
بہت سے لوگ تو ایسے بھی ہیں اسی یُگ میں
کتاب پڑھتے نہیں ہیں، کتاب لکھتے ہیں
وہ اپنے جسم کے خانوں میں آگ رکھتے ہیں
گلاب ہوتے نہیں ہیں، گلاب لکھتے ہیں
نہ ہو جو ختم ایسی داستاں میں چھوڑ جائیں گے
ہمیں معلوم تھا وہ درمیاں میں چھوڑ جائیں گے
در و دیوار بھی روتے رہیں گے یاد کر کر کے
ہم اپنی یاد کی کھڑکی مکاں میں چھوڑ جائیں گے
اگر ہم سے کبھی ملنے کی خواہش ہو تو پڑھ لینا
کہ اپنے آپ کو اردو زباں میں چھوڑ جائیں گے
کسی کے پیکر روپوش پر نظر ہے ابھی
تو دور مجھ سے در اندازیٔ سحر ہے ابھی
یہ جان کر بھی کہ مجھ پر نظر نظر ہے ابھی
مِرا شعور برائی سے بے خبر ہے ابھی
لگے ہیں بغض کے شیشے جہاں جبینوں میں
وہاں اداس محبت کا سنگِ در ہے ابھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کرم کا مخزن، سخا کا مرکز، عطا سراپا جنابِ زہراؑ
نبیؐ کی صورت نبیؐ کی سیرت نبیؐ کا نقشہ جنابِ زہرا
رسولِ اعظمﷺ کی پیاری دختر شہید اعظمؑ کی پاک مادر
جنابِ شیر خداؑ کی بانو، جناں کی ملکہ جنابِ زہرا
سراپا رحمت سراپا راحت سراپا عفت سراپا عصمت
رسول اکرمﷺ کے دل ٹھنڈک بتول اظہرا جنابِ زہرا
تھوڑی گڑبڑ مچا کہانی میں
ایک پاگل کو لا کہانی میں
کوئی راضی نہیں تھا مرنے پر
اس نے مجھ کو لیا کہانی میں
مجھ سے شیطان نے کہا آ کر
چل بے جنت سے جا کہانی میں
روشنی، چاند، ستارہ ہیں تمہاری آنکھیں
میری چاہت کا سہارہ ہیں تمہاری آنکھیں
ان ہی آنکھوں کی چمک سے مِرا دل ہے روشن
میری قسمت کا ستارہ ہیں تمہاری آنکھیں
جب بھی پوچھا گیا مجھ سے کہ یہاں کیا ہے حسِین
میں نے برجستہ پکارا، ہیں تمہاری آنکھیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آ، غمِ شبیرؑ آ، سینے لگا کے چوم لوں
کربلا کی خاک کو آنسو پِلا کے چوم لوں
آ میرے اصغرؑ صدا دیتی تھیں صغراؑ رات دن
آ تیری راہوں کو میں پلکیں بِچھا کے چوم لوں
یوں مخاطب لاشۂ اکبرؑ سے تھے ابنِ علیؑ
اٹھ میرے بیٹے تجھے دل میں بِٹھا کے چوم لوں
مِری ہستی کو کن کی وہ صدا دے
اسے پھر زیست کا حاصل بنا دے
مِرے جیون کو اندھیاروں نے گھیرا
اسے شمع فروزاں کی دعا دے
نہ دے انگارے اس جھولی میں میری
اُدھر بگیا ہے کچھ کلیاں تو لا دے
اک تو یہ زندگی ہی سراسر فریب ہے
اور اس پہ آگہی بھی برابر فریب ہے
اچھا اسے سمجھتے ہیں جو من پسند ہو
یعنی، ہمارا فہم و تدبر فریب ہے
تعبیر تیرے خواب کی معلوم ہے مجھے
تجھ کشتۂ گماں کا مقدر فریب ہے
شام کے ڈھلتے سورج نے یہ بات مجھے سمجھائی ہے
تاریکی میں دیکھ سکوں تو آنکھوں میں بینائی ہے
احساسات کی تہہ تک جانا کتنا مشکل ہوتا ہے
ذہن و دل میں جتنا اترو، اتنی ہی گہرائی ہے
رشتے ناطے باہر سے تو جسم کو گھیرے بیٹھے ہیں
روح کے اندر جھانک کے دیکھو میلوں تک تنہائی ہے
تیری یادوں کے روزہ دار ہوئے
تیری فُرقت کا ہم شکار ہوئے
جامِ چشمِ غزال سے پیتے ہم
صوم ایسے نہ پر افطار ہوئے
تیر ایسے چلائے نظروں کے
کہ سینہ و دل سے آر پار ہوئے
عارفانہ کلام حمدیہ کلام دعائیہ کلام
اے ربِ ذوالجلال فقط ایک نظر دیکھ
انسانیت کیوں ہو گئی ہے زیر و زبر دیکھ
شامل ہے میری ذات کسی ایک گناہ میں
دل پر لیا نہیں ہے کوئی غم نہ اثر دیکھ
پھر رقصِ کائنات پر آے نہ کوئی آنچ
پھر وادئ حیات میں گمراہ ہے بشر دیکھ
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
چادر تنی ہوئی ہے میرے سر پہ نورؐ کی
مجھ کو طلب نہیں ہے حریر و سمور کی
چنتی رہی ہوں پھول میں طیبہ کے باغ سے
خوشبو بسی ہوئی ہے میرے دل میں طور کی
صدیاں تیریؐ زمانے تیرےؐ حکمرانیاں
صل علیﷺ ہی روشنی رب غفور کی
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
مرے لب پہ غنچہ بن کے تِراﷺ نام کھل اٹھا ہے
جو درودﷺ پڑھ کے بیٹھا تو سلام کھل اٹھا ہے
ہیں جو باقی پھول سارے ڈھلے دن تو سوکھ جائیں
تیریﷺ یاد کا گلستاں سر شام کھل اٹھا ہے
میں اسی لیے تو آقاﷺ تری نعت لکھ رہا ہوں
تِرا نامﷺ جب بھی لکھا تو کلام کھل اٹھا ہے
عارفانہ کلام حمدیہ و نعتیہ کلام
مستحق حمد و ثنا کا خدائے وہاب
جس نے دی آنکھ ہمیں آنکھ کو دی نور سے آب
کھول دی چشمِ بصارت بجمالِ ظاہر
جس سے ممتاز نگاہوں میں خوب و خراب
دل کو دی چشمِ بصیرت بکمالِ باطن
جس کی رو سے متمیز ہیں خطا و ثواب
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
اک رات رجب کی لکھّی ہے، اک صبح ربیع الاوّل کی
لو میں نے مضامیں جوڑ لیے، لو میں نے نعت مکمل کی
موجود نہ تھے، تقدیر تھے سب، تصویر نہ تھے تحریر تھے سب
پھر نور نے نور کے پرتَو سے صناعیِ چہرۂ اوّلﷺ کی
دیدار کی ساعت کو رکھا آزاد ہر اک پیمانے سے
پرکارِ ابد کے مرکز نے خود گردشِ وقت معطّل کی
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
میں اور مجھ کو اور کسی دلربا سے عشق؟
خیر الوریٰ سے عشق ہے خیر الوریٰؐ سے عشق
دنیا کی مجھ کو چاہ نہ اس کی ادا سے عشق
دونوں جہاں میں بس ہے مجھے مصطفیٰؐ سے عشق
وہ آخرت کی راہ کو ہموار کر چلا
جس کو بھی ہو گیا شہ انبیاؐ سے عشق
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
کُفر نے رات کا ماحول بنا رکھا ہے
میرے سینے میں محمدﷺ کا دِیا رکھا ہے
وہؐ جو مِل جائے، تو بیشک مجھے جنت نہ مِلے
عشق کو اجر کے لالچ سے بچا رکھا ہے
خواب میں وہؐ نظر آئے تو پھر آنکھیں نہ کُھلیں
میں نے مُدت سے یہ منصوبہ بنا رکھا ہے
اکثر آتے جاتے حاصل ایک سعادت ہو جاتی ہے
اس کی آنکھیں پڑھ لیتے ہیں اور عبادت ہو جاتی ہے
ہم ملتے تھے چاند، ہوا، بادل اور جھیل نے دیکھا ہو گا
چار گواہ اکٹھے ہوں،۔ مقبول شہادت ہو جاتی ہے
دُکھ بھی بچے جَن سکتے ہیں میرے چاروں جانب دیکھو
ہر شب میرے کمرے میں آہوں کی وِلادت ہو جاتی ہے
یہ کتنا سچ ہے دیکھیں گے کہ وہ کیسے لگاتے ہیں
سنا ہے خوبصورت لوگ زخم اچھے لگاتے ہیں
مسافت میں الگ دستور ہے میرے قبیلے کا
جہاں پانی نہیں ہوتا، وہاں خیمے لگاتے ہیں
مقفّل در سوالی کے جگر کو چیر دیتا ہے
گلی کے لوگ دروازوں پہ کیوں تالے لگاتے ہیں
ہمیں لپٹنے کو دیوار و در نہیں آئے
کسی مکان میں آئے ہیں گھر نہیں آئے
پلٹ کے آ گیا تُو بھی تیری محبت بھی
مگر وہ پندرہ برس لوٹ کر نہیں آئے
میاں یہ آنکھیں ہمیں واپسی پہ چاہئیں تھیں
ہم اس لیے بھی اسے دیکھ کر نہیں آئے
نظارہ دیکھنے کو اس جہاں کی آنکھیں ہیں
یہ پھول پهول نہیں گلستاں کی آنکھیں ہیں
ہر آدمی کی بصارت میں فرق ہوتا ہے
بظاہر ایک سی سارے جہاں کی آنکهیں ہیں
وہ بولتا نہیں، پر ہم کو دیکھتا تو ہے
ستارے چاند بھی تو آسماں کی آنکھیں ہیں
ہے میری ناؤ جسے بادباں میسر ہے
سبھی کو ایسی سہولت کہاں میسر ہے
درست ہے کہ میں ہجرت سے پہلے بے گھر تھا
نصیب دیکھ، مجھے اب مکاں میسر ہے
میں جانتا ہوں مجھے نیند آنے والی ہے
میں جانتا ہوں کہ جائے اماں میسر ہے
آئی سمجھ حیات بھی رُسوائیوں کے بعد
دل کو ملا سکوں بڑی پسپائیوں کے بعد
اپنا بنا کے رکھتا تھا جو اک جہان کو
کیا مل گیا اسے بھی شناسائیوں کے بعد
بنجر زمینِ دل پہ نہ اب سبزہ اُگائیے
بھاتی نہیں ہیں رونقیں تنہائیوں کے بعد
وہ داغ دل جو چھپا لیے ہیں تمہیں دکھا کے میں کیا کروں گا
وہ غم جو دل میں بسا لیے ہیں تمہیں سنا کے میں کیا کروں گا
اپنی میّت کو اپنے کاندھوں پہ لے کے تنہا رواں دواں ہوں
میں خود ہی کافی کفن دفن کو، جہاں بُلا کے میں کیا کروں گا
وہ ہمسفر جس نے راہ میں ہی الگ الگ کر لیے تھے رستے
وہ پھر سے مجھ کو اگر پکارے پلٹ کے آ کے میں کیا کروں گا
میں شعر کہہ سکوں مجھے اتنی مجال دے
مولا! تو میری فکر کی گدڑی کو لعل دے
اک وہ بشر ہے جس کی فرشتے کریں طلب
اک خاطرِ نصیب پرندے کو فال دے
اب دیکھ لے ہمارے نصیبِ سیاہ کو
جس پر پڑے نظر تِری اس کو اُجال دے
تمہارے نام
یہ شام گیسو، گلاب صبحیں
تمہارا طرزِ ادا غضب ہے
مجھے بتا دے اے میرے ہمدم
خدا کی بارش تیری نوازش
یہ لہلہاہٹ ہمارے گرد و نواح میں ہے جو
ناتواں، ناساز مر جائیں گے کیا
ہم نظر انداز مر جائیں گے کیا
ہم کسی تفصیل کے قابل نہیں
ہم سرِ آغاز مر جائیں گے کیا
ہاں، خدا کا رازداں ہوں مار دو
مارنے سے راز مر جائیں گے کیا
اس کے کرم سے ہے نہ تمہاری نظر سے ہے
موسم دلوں کا درد کے روشن شجر سے ہے
جس سے مِرے وجود کے پہلو عیاں ہوئے
شاید مِرا معاملہ اس کے ہنر سے ہے
حائل ہوا نہ کوئی تعلق کی راہ میں
دائم تمام سلسلہ بنتِ سحر سے ہے
مِرے نغمے بہاروں کے، مِرے مضراب رکھے تھے
مِرے تکیے کے نیچے تو مِرے سب خواب رکھے تھے
جہاں پہ اب عجب دو نیم سے سلوٹ پریشاں ہے
وہاں تو کہکشاں رکھی تھی اور مہتاب رکھے تھے
یہیں پہ شوخ رنگوں سے سجی تصویر تھی کل کی
یہیں پہ ریشمی حرفوں کے کچھ سُرخاب رکھے تھے
اس کا چہرہ مجھے کبھی جب بھی نظر آتا ہے
میری آنکھوں کا رنگ اور بھی نکھر جاتا ہے
اس لیے اس کی گلی سے گزرتا ہوں میں
اس سے آگے کہیں میرا بھی تو گھر آتا ہے
تیری زلفیں یوں کرتی ہیں سایہ مجھ پر
جیسے صحرا کی کڑی دھوپ میں شجر آتا ہے
کس وہم میں اسیر ترے مبتلا ہوئے
کب اہلِ شوق دامِ وفا سے رہا ہوئے
آزاد ہو کے اور بھی بے دست و پا ہوئے
کس دردِ لا علاج میں ہم مبتلا ہوئے
دل دادگان بادیۂ صر صر و سموم
شہزادگان ملکِ نسیم و صبا ہوئے
بکھری تھی ہر سمت جوانی رات گھنیری ہونے تک
لیکن میں نے دل کی نہ مانی رات گھنیری ہونے تک
درد کا دریا بڑھتے بڑھتے سینے تک آ پہنچا ہے
اور چڑھے گا تھوڑا پانی رات گھنیری ہونے تک
آگ پہ چلنا قسمت میں ہے، برف پہ رُکنا مجبوری
کون سُنے گا اپنی کہانی، رات گھنیری ہونے تک
یہی پہچان ہے میری، یہی میرا حوالا ہے
کہ میں نے درد کو آغوش میں دن رات پالا ہے
مجھے کل سسکیاں لیتی ہوئی دھرتی نے بتلایا
مِرے بیٹے نے میری چھاتیوں کو روند ڈالا ہے
تِرے بے نور چہرے پر شرارت رقص میں کیوں ہے
ابھی تو آب سے موتی کو بس تھوڑا سا اچھالا ہے
چند سانسوں کی زندگی سے لڑ
روشنی ہے تو آگہی سے لڑ
نفرتوں کی شِدت سے لازم ہے
اے محبت! نہ بے دلی سے لڑ
عشق لمبی اننگز مانگتا ہے
کھیلنا ہے تو دل لگی سے لڑ
عراق و دیبل و مصر و عرب کی بات کریں
جہاں جہاں بھی ہوا ظلم سب کی بات کریں
کچھ ایسے لوگ جو دھیمے سُروں میں سوچتے ہیں
عجب نہیں جو کریں تو غضب کی بات کریں
قلیل وقت ہے، کرنے کو سینکڑوں باتیں
کہاں کا ذکر کریں، اور کب کی بات کریں
شرار و برق میں پنہاں تِرے جلال کا رنگ
گلوں پہ چھایا ہوا ہے تِرے جمال کا رنگ
فلک کے چاند ستاروں میں بھی نمایاں ہیں
تِرے کمال کی صورت مِرے خیال کا رنگ
🔴 یہ کون کھیل گیا آسمان پر ہولی
شفق کے دامنِ رنگیں میں ہے گُلال کا رنگ
مڈل کلاس
ہماری قسمت میں کیا لکھا ہے؟
یہ دھول مٹی سے اٹتی صبحیں
یہ گرد آلود دُھندلی شامیں
یہ کٹتی، جلتی، ادھوری سانسیں
یہ بند در، ادھ کُھلی سے کھڑکی
کہ جس کے در پر لگی ہے جالی
بڑے سلیقے سے زندگی کو عذاب کر کے چلا گیا تھا
وہ کیا گیا تھا کہ میری دنیا کو خواب کر کے چلا گیا تھا
ہم اسکی یادوں کی بکھری کرچوں کو اپنی پلکوں سے چن رہے تھے
وہ اتنی عجلت میں تھا کہ سب کچھ خراب کر کے چلا گیا تھا
یہ کس کے جانے کے بعد اب تک ہم اپنے اشکوں کو پی رہے ہیں
یہ کون تھا؟ جو ہماری آنکھیں شراب کر کے چلا گیا تھا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
لب پر نعت پاک کا نغمہ، کل بھی تھا، اور آج بھی ہے
میرے نبیؐ سے میرا رشتہ، کل بھی تھا اور آج بھی ہے
پست وہ کیسے ہو سکتا ہے، جس کو حق نے بلند کیا
دونوں جہاں میں انؐ کا چرچا، کل بھی تھا، اور آج بھی ہے
اور کسی جانب کیوں جائیں، اور کسی کو کیوں دیکھیں
اپنا سب کچھ گنبدِ خضرا، کل بھی تھا، اور آج بھی ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
آنگن کا میں نہ تھا کہ در و بام کا نہ تھا
آوارۂ جہاں تھا کسی کام کا نہ تھا
پھیلا ہوا تھا ایک اندھیرا اِدھر اُدھر
لیکن کوئی چراغ مِرے نام کا نہ تھا
دامن اٹا ہوا تھا گُناہوں کی دُھول سے
میں مستحق کسی طرح انعام کا نہ تھا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
رقص طاؤس، نہ آواز کے جادو میں ملی
دل کو تسکین فقط نغمۂ حق ہُو میں ملی
رنگ والشمس کا رُخسار نبیﷺ میں دیکھا
شان واللیل کی سرکارؐ کے گیسُو میں ملی
عشق نے ڈھونڈا تو آقاؐ کے پسینے کی مہک
کیسۂ گُل میں ملی،۔ نافۂ آہُو میں ملی
اقتباس از نظم کوثر العلوم
یہ کیسی دھوم ہے باغ جہاں میں آج اے ہمدم
گلوں سے بلبل نالاں گلے ملتی ہے کیوں پیہم
خوشی سے کیوں ترانے گا رہی ہیں قمریاں باہم
برستا ہے یہاں پر ابرِ رحمت آج کیوں چھم چھم
ہوئے جاتے ہیں گُل جامے سے باہر شادمانی سے
ہوئی جاتی ہے بلبل مست اپنی نغمہ خوانی سے
عارفانہ کلام حمدیہ کلام
سب تِرا ہے، میرا کیا ہے اے خدا میرے خدا
جو بھی ہے تیری عطا ہے اے خدا میرے خدا
تُو ہی اب اِذنِ رہائی دے کہ کُھل کر سانس لے
قید تن میں بولتا ہے؛ اے خدا،۔ میرے خدا
نُطقِ حادث سے کہاں ممکن کہ ہو حمدِ قدیم
تُو ورائے ماسوا ہے، اے خدا، میرے خدا
ٹھنڈی سوندھی ہواؤں جیسا ہے
دھوپ میں مجھ کو چھاؤں جیسا ہے
اتر آتی ہے روح تک تاثیر
لہجہ اس کا شفاؤں جیسا ہے
مجھ کو ساحل کی فکر کیونکر ہو
ساتھ وہ نا خداؤں جیسا ہے
سرزرد عشق ہو گیا دل کے دباؤ میں
تو صاف دھاندلی ہوئی نا اس چُناؤ میں
یہ کانچ تو نہیں ہے یہ شمسی نظام ہے
سب کائنات گھومتی ہے اس گُھماؤ میں
کل شب اُداسیوں نے کیا پھر مجھے طلب
تصویر پیش کی تِری میں نے بچاؤ میں
زندگی کا سفر یہ کیسا ہے
کوئی منزل نہ کوئی رستہ ہے
اہلِ دل بے سبب بھٹکتے ہیں
جستجو بے کنار صحرا ہے
دوستی کا یہ رشتہ سمجھو تو
خون کے رشتے سے بھی گہرا ہے
طبیب کہتے ہیں جز وہم خواب کچھ بھی نہیں
تو کیا جو ہم نے سہے وہ عذاب کچھ بھی نہیں
ہماری دشت نوردی تمہارے کام آئی
تمہیں یہ کون بتاتا سراب کچھ بھی نہیں
نظیر اس کی میں کیا دوں کہ سامنے اس کے
چراغ،۔ ماہ،۔ ستارہ،۔ گلاب کچھ بھی نہیں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
عرب سے آج بھی جو فیض عام جاری ہے
ہر اک زباں پہ درود و سلام جاری ہے
خدا کے دِین کی تشہیر اس طرح سے کی
بہ صد خلوص ابھی تک وہ کام جاری ہے
کتابِ نورِ الہیٰ روشن ہے سینوں میں
وہ حرف حرف سلامت، کلام جاری ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
جنہیں انِ کے نظارے ہو گئے ہیں
وہ ذرے چاند تارے ہو گئے ہیں
جسے تیراﷺ سہارا مل گیا ہے
اُسے کتنے سہارے ہو گئے ہیں
تمہارےﷺ در کا ٹکڑا اللہ، اللہ
غریبوں کے گزارے ہو گئے ہیں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
شب برأت
لطف و کرم و عطا کی ساعت آئی
بخشش کا پیام لے کے رحمت آئی
جو مانگو گے آج دل سے مل جائے گا
مانگو، مانگو، شبِ برأت آئی
پروانۂ مغفرت کی ساعت آئی
ختم نبوت
اک نبوت ہی نہیں ختم نبوت بر دوش
اک صحیفہ ہی نہیں ہاتھ میں اعجازی کتاب
ذاتِ خاتمﷺ میں نبوات کے سارے انوار
ذاتِ قرآں میں ہدایات کے سارے ابواب
کیسے اقوام و مِلل میں نہ پہنچتی یہ ضیا
جبکہ جامع بھی تھی، خاتم بھی تھی ذات و کتاب
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
زمیں سے آسماں تک، آسماں سے لا مکاں پہنچے
جہاں کوئی نہ پہنچا سرورِ عالم ﷺ وہاں پہنچے
رُکے جبریلؑ، لیکن ان کو جانا تھا وہاں پہنچے
محمدؐ مصطفیٰؐ عرشِ علیٰ تک بے گماں پہنچے
پکارا جب کسی نے یا محمدؐ مصطفیٰﷺ کہہ کر
مدد کو اپنے فریادی کی شاہِؐ اِنس و جاں پہنچے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
بظاہر تو یہ دنیا خوبصورت ہے سہانی ہے
بقاء اس کو نہیں حاصل یہ دنیا دار فانی ہے
کبھی اِترا کے چلتا ہے کبھی بل کھا کے چلتا ہے
تُو جس پر ناز کرتا ہے، یہ دو روزہ جوانی ہے
کہاں قارون کی دولت،۔ کہاں شداد کی جنت
کہاں فرعون کی وہ جابرانہ حکمرانی ہے
جام اک بھر کے دے اے پیرِ خرابات مجھے
کر دے اب بہرِ خدا مستِ مئے ذات مجھے
محو فی الذّات ہیں، خورشید سے نسبت ہے انہیں
نظر آتے ہیں جو اُڑتے ہوئے ذرّات مجھے
یار بر میں ہے، اِدھر جام لیے ہے ساقی
کس لیے راس نہ آئے گی یہ برسات مجھے
میں خواب دیکھتی ہوں، تم تعبیر دیکھنا
میں لفظ ڈھونڈتی ہوں، تم تفسیر دیکھنا
مجھ میں کہاں تاب کہ میں سہہ سکوں اسے
اس نے ہی سہہ لیا،۔ مِری تقدیر دیکھنا
شکوہ کِیا ہے اس نے کہ میں دور کیوں ہوئی
اس کو تو نہ دِکھا اس پاؤں کی زنجیر دیکھنا
زمانے بھر کا جو فتنہ رہا تھا
وہی تو گاؤں کا مُکھیا بنا تھا
مِری شہرت کے پرچم اُڑ رہ تھے
مگر میں دُھوپ میں تنہا کھڑا تھا
ہزاروں راز تھے پوشیدہ مجھ میں
میں اپنے آپ سے چُھپ کر کھڑا تھا
ہاتھ پھیلیں نہ زیادہ تو جھکیں گے بھی کم
اب تِرے شہر میں اے حسن! رکیں گے بھی کم
جُڑ گئے سلسلے اصنام پرستی سے اگر
خُوبرو چہرے خیالوں میں رہیں گے بھی کم
چاندنی شب کے کناروں پہ بُجھی جاتی ہے
جلنے والے یہاں اب اور جلیں گے بھی کم
کہاں، اور کب، کب اکیلا رہا ہوں
میں ہر روز ہر شب اکیلا رہا ہوں
مجھے اپنے بارے میں کیا مشورہ ہو
میں اپنے لیے کب اکیلا رہا ہوں؟
اداسی کا عالم یہاں تک رہا ہے
میں ہوتے ہوئے سب اکیلا رہا ہوں
بربادیوں سے شاد ہوں ان کی خوشی بھی ہے
وجہِ بہارِ غم مِری دیوانگی بھی ہے
پیہم تڑپ سے درد میں کچھ تازگی بھی ہے
تکمیلِ اضطراب مِری زندگی بھی ہے
ذکرِ شراب 🍷و جام کِیا، اور بہک گیا
واعظ! مجھے بتا کہ کبھی تُو نے پی بھی ہے
ہے شور ساحلوں پر؛ سیلاب آ رہا ہے
آنکھوں کو غرق کرنے پھر خواب آ رہا ہے
بس ایک جسم دے کر رخصت کیا تھا اس نے
اور، یہ کہا تھا؛ باقی اسباب آ رہا ہے
خاکِ وصال کیا کیا صورت بدل رہی ہے
سورج گزر چکا ہے،۔ مہتاب آ رہا ہے
گہری نیند
مانجھیوں کا تھا رزق جو پانی
اب انہیں کو ڈبو رہا ہے کیوں؟
جاگ اٹھا چناب پھر شاید
موت ہے لہر لہر پانی کی
پیاس سب کی بُجھانے والا یم
پانی پانی کے اک شور میں کتنی چیخیں ڈُوب گئیں
پہلے کچھ آوازیں ابھریں، آخر سانسیں ڈوب گئیں
کون سدھائے بپھرا پانی،۔ کون اُسارے مٹی کو
دریاؤں پر پُشتے باندھنے والی بانہیں ڈوب گئیں
پانی کا عفریت اُچھل کر شہ رگ تک آ پہنچا تھا
بچے جس پر بیٹھے تھے اس پیڑ کی شاخیں ڈوب گئیں
کون کہ سکتا ہے
کس وقت خدا برہم ہو
اور پھر ابرِ کرم، ابرِ مصیبت بن جائے
ہے کوئی علم؟ کوئی فکر؟
کوئی صاحبِ دل؟
جو بتا سکتا ہو؛ معروضِ مشیّت کیا ہے؟
سیلاب ہی سیلاب ہیں ساحل نہیں رکھتے
ہم درد تو رکھتے ہیں مگر دل نہیں رکھتے
آوارہ مزاجوں کو فقیروں کی دعا ہے
منزل نہیں رکھتے غمِ منزل نہیں رکھتے
کشکول نہ شایاں سہی دہلیزِ حرم کے
کیا کاسۂ سر بھی تِرے سائل نہیں رکھتے
سیلابوں کے بعد ہم ایسے دیوانے ہو جاتے ہیں
اپنے گھر سے اس کے گھر تک پہروں دوڑ لگاتے ہیں
ہم نے اپنے ہاتھ زمیں میں داب رکھے ہیں اس ڈر سے
دستِ طلب پھیلانے والے دیوانے کہلاتے ہیں
ان آنکھوں کی سیوا کر کے ہم نے جادو سیکھ لیا
جب بھی طبیعت گھبراتی ہے پتھر کے ہو جاتے ہیں
ہم کوئی ایسا جرم کریں
ہم کوئی ایسا جرم کریں
ہم کوئی ایسا جرم کریں کہ لوگ
ہمیں کسی تاریک کوٹھڑی میں بند کر دیں
اور کبھی پلٹ کر ہماری خبر نہ لیں
تاکہ ہم لوگوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھا سکیں
قدم قدم پہ نیا امتحان چھوڑا ہے
کسی نے عین بھنور درمیان چھوڑا ہے
جبھی تو سب کو میں شک کی نظر سے دیکھتا ہوں
مجھے کسی نے بڑا بد گمان چھوڑا ہے
میں ذیلی رستہ نہیں تھا مگر مجھے اس نے
نہ جانے سوچ کے کیا بے نشان چھوڑا ہے
طبیعت پریشاں ہے آئے کوئی
نہ زخموں پہ مرہم لگائے کوئی
رموزِ محبت سے واقف ہیں ہم
ہمیں کیوں سلیقے سِکھائے کوئی
ہیں محروم ہم گریۂ عشق سے
ہمیں ہجر دے کے رُلائے کوئی
اب خود بھگت، کہا تھا بدل مت، بدل گئی
کتنی سہولتوں سے سہولت بدل گئی
دیکھو کہ ہر خوشی کی علامت بدل گئی
رنگت کو زنگ کھا گیا، صورت بدل گئی
تیرے بقول تیری ضرورت تھا صرف میں
پھر کیا ہوا؟ کہ تیری ضرورت بدل گئی
بوجھ کاندھوں پہ جو ہمارے ہیں
ہم نے اب تک نہیں اتارے ہیں
اب دوا ہو یہ کیسے ممکن ہے
زخم سینے پہ اتنے سارے ہیں
وہ کہیں بھی سکوں نہ پائے گا
جس نے ہم سے کیے کنارے ہیں
سوچ میں بس اس قدر ترمیم کر تعظیم کر
آدمی کو آدمی تسلیم کر،۔ تعظیم کر
پتھروں سے دل لگایا تھا تو خمیازہ بھگت
کس نے بولا تھا انہیں تجسیم کر، تعظیم کر
اپنے منصب کو سمجھ تو احسنِ تقویم ہے
احسنِ تقویم کی تقویم کر،۔ تعظیم کر
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ آج کیا بولوں
وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں مزاج کیا بولوں
اگر بتا دوں کہ خواہش ہے ساتھ چلنے کی
تو وہ کہیں گے کرو گھر میں راج، کیا بولوں
اگر بتا دوں کہ پہچان چاہتی ہوں میں
کریں گے پیش وہ دیوی کا تاج، کیا بولوں
جو شخص تجھ کو فرشتہ دکھائی دیتا ہے
وہ آئینے سے ڈرا سا دکھائی دیتا ہے
کیا تھا دفن جسے فرش کے تلے کل رات
وہ آج چھت سے اترتا دکھائی دیتا ہے
تِری نگاہ میں ممکن ہے کچھ اٹک جائے
مجھے تو صرف اندھیرا دکھائی دیتا ہے
پسِ مرگ چاہت سنبھالے رہیں گے
تہہِ خاک تب ہی اُجالے رہیں گے
نہیں اور کچھ تو کوئی زخم دے دو
اسے اپنے سینے میں پالے رہیں گے
👁اثر ان نگاہوں پہ کیا وقت کا ہو👁
درخشاں وہ دو مئے کے پیالے رہیں گے
خوابِ یوسفؑ
مجھے روشنی کی ضرورت سے باندھا گیا
اور آنکھوں میں
نور بھر کے دو نقطے
تارِ تجلی کی ضوباریوں سے یوں گانٹھے گئے
کہ وہ مہر و مہ کی ردائے تحیّر میں لپٹے اجالے کی
لادینی جمہور
اس دور میں ارزاں ہے آئینِ جہاں بانی
مے خواری و بدمستی، بے کاری و عریانی
خاکشترِ شاہی سے پھوٹا ہے وہ اک فتنہ
شرمندہ ہوئی جس سے شیطاں کی ہمہ دانی
لادینیِ جمہوری اک دن میں نہیں آئی
برسوں کا تجسس ہے، صدیوں کی گراں جانی
اس سے پہلے کہ دھواں آنکھ میں آنے لگ جائے
یہ ضروری ہے دِیا، لَو کو بڑھانے لگ جائے
کتنا اچھا ہو کہ لہروں کو جلانے کے لیے
چاند، پانی پہ تِرا عکس بنانے لگ جائے
میرے مولا! تُو مجھے ایسی اذیت سے بچا
جب خریدار، مِرے دام گھٹانے لگ جائے
عارفانہ کلام حمدیہ کلام
حبل الورید
کراں تا کراں پھیلتے آسماں
سکوت اور خلا سے پرے جانے کیا
میرے افکار کی جست سے ماوراء
میری منطق کی تفسیر سے لا مکاں
ہے کوئی؟ ہے کوئی؟
کبھی اپنوں نے منہ پھیرا کبھی یاران بدلے ہیں
ذرا سا وقت کیا بدلا کہ سب انسان بدلے ہیں
سکوں پھر بھی نہ مل پایا ہمارے قلبِ مضطر کو
اگرچہ اس کی خاطر سینکڑوں سامان بدلے ہیں
یہ دنیا چار دن کی ہے سنبھل جا وقت ہے اب بھی
کہ دولت نے ہزاروں کے یہاں ایمان بدلے ہیں
یہاں ایمان بِکتے ہیں، یہاں قرآن بِکتے ہیں
بڑی فہم و فراست سے یہاں میزان بِکتے ہیں
یہاں طاقت کے پروردہ کئی اصنام رہتے ہیں
یہاں انصاف کیوں ہو گا یہاں انسان رہتے ہیں
نبیؐ تو یاد ہیں سب کو مگر بُھولی شریعت ہے
خدا کا بھی نہیں کچھ ڈر بڑی بے باک امّت ہے
رزم حق و باطل
وہ دمِ شمشیر جس سے قوتیں زیر و زبر
وہ نگاہِ تیز جس میں گرمئ برق و شرر
قلبِ دریا جس سے لرزاں ہے وہ موجِ رُست خیز
وہ تڑپ بجلی کی جس سے کانپتے ہیں بحر و بر
لا پرستوں کے لیے وہ ضرب الا اللہ ہے
گونجتی ہے زندگی میں جس کی آوازِ اثر
سلام بر شہدائے تحریک ختم نبوتﷺ
سن تریپن کے شہیدو تم پہ ہو رحمت مدام
دینِ احمدﷺ کو دیا تم نے خون ذوالکرام
کٹ مَرے جو بس رضائے مصطفیٰؐ کے واسطے
ان شہیدوں پہ ہو رحمت، ان پہ ہوں لاکھوں سلام
گنبدِ خضریٰ تمہارے عشق کا ہے معترف
کارگاہِ شوق میں گونجا تمہارا نیک نام
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
ہم ختمِ نبوت کا جو اظہار کریں گے
گر جرم عقیدت ہے تو ہر بار کریں گے
کامل ہے یقیں اس میں کہ مرزائی ہے کافر
ہم بحث و مباحث نہ ہی تکرار کریں گے
پہلے بھی تو مردود غلاظت میں مَرا ہے
اب ہم بھی انہیں کیفرِ کردار کریں گے
عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام حسینؑ
گلشنِ زہراؑ میں ہے فصلِ خزاں آئی ہوئی
آسماں پر غم کی ہے کالی گھٹا چھائی ہوئی
اس کو رونے جس کا کوئی بھی نہیں تھا نوحہ گر
لاشۂ شبیرؑ پر زینبؑ ہے آج آئی ہوئی
قاصدِ صغراؑ سے یوں رو کر کہا شبیرؑ نے
جاگ لینے دو، جوانی کو ہے نیند آئی ہوئی
جمہوریت سے پیار نہ سیاست کا شغف ہو
اسلام کا غلبہ ہی مسلماں کا ہدف ہو
جمہوری بحث چھوڑ کے رخ اپنا ہمیشہ
ہر حال میں ہر دور میں میداں کی طرف ہو
تدبیر کرو زیرِ اثر پھر سے ہمارے
بغداد ہو بصرہ ہو فلوجہ ہو نجف ہو
منزل دور ہے اب تک
مثالِ کارواں چلتا ہی رہتا ہے
کہیں پر سست رو ہوتا
کہیں سیلِ بلا ہوتا
کبھی قسعت میں بستی اور بیاباں کو
لبھاتا ہے کشش سے
حصارِ مہر جو مسمار ہوتا جاتا ہے
دراز سایۂ دیوار ہوتا جاتا ہے
یہ کس نے دُھوپ کنارے سے جھانک کر دیکھا
اُفق بھی سُرخئ رُخسار ہوتا جاتا ہے
شکار گاہ میں ہانکا کرانے والا ہوں
ہدف بھی میرا طلبگار ہوتا جاتا ہے
قلم کی نمی کو روانی کہاں ہے
نیا زخم ہے تو جوانی کہاں ہے
پڑا ہے سفر کا یہ سودا بھی مہنگا
کہ نقشِ قدم کی نشانی کہاں ہے
نئی دُھوپ ہے اور سایہ پُرانا
ہوا میرے گھر کی سُہانی کہاں ہے
آئے گا اس کو خاک دوپٹہ سنبھالنا
بچپن میں جس کو پڑ گیا کنبہ سنبھالنا
ایڑے کی مُرکیوں میں کہاں کھو گیا ہے تُو
طبلے پہ دھیان دے میاں ٹھیکہ سنبھالنا
بیٹی بِدا ہوئی ہے تو پھر سیکھنا پڑا
شملہ سنبھالتے ہوا حقہ سنبھالنا
الزام ہو کے رہ گئی حرفِ وفا کی بات
خواب و خیال ہو گئی لطف و عطا کی بات
محور بنی ہوئی ہے میرے ذوق و شوق کا
ہاں رسمِ عاشقی میں تیرے نقشِ پا کی بات
ہوش و خرد سے رابطے سب میرے کٹ گئے
جب سے پڑی ہے کان میں اس خوشنوا کی بات
صدقِ دل
چھوٹا سا کاغذ
بھیگی قلم
لکھتے ہی جاؤ
جذب و کرم
دھڑکن کے پیچھے
رکھ لو قدم
نہ دلوں میں پاسِ وفا رہا، نہ جنوں میں تیشہ وری رہی
نہ گلوں میں رنگِ طرب رہا، نہ جنوں میں بخیہ گری رہی
نہ ہمیں رہے نہ وہی رہے، جو رہی تو عشوہ گری رہی
نہ طلب رہی نہ کرم رہا، نہ متاعِ زخمہ وری رہی
نہ تِری نظر کی نوازشیں، نہ مِری طلب کی نہایتیں
نہ وہ دل میں جوششِ مے رہی، جو رہی تو دردِ سری رہی
باتوں سے تیری بات کی خوشبو نکل پڑے
پہچان کا کہیں کوئی پہلو نکل پڑے
کم کم کہوں میں شعر سناؤں بہت ہی کم
کیا جو کسی غزل سے کبھی تو نکل پڑے
اس بار اس نے آپ سے تم کہہ دیا ہمیں
ایسی خوشی کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے
وقتِ آخر کام جذبِ نا تمام آیا تو کیا
ہچکیوں کی شکل میں ان کا پیام آیا تو کیا
رہ گئی رندوں میں جب ساغر اٹھانے کی نہ تاب
اب تغافل آشنا ساقی بہ جام آیا تو کیا
وقت ہی پر لے کے ابھرے گا پیام صبح نو
ڈوبتے سورج کو تاروں کا سلام آیا تو کیا
اٹھ گئے یاں سے اپنے ہمدم تو
ہاتھ ملتے ہی رہ گئے ہم تو
یار آیا ہے، دیکھ لوں اس کو
اے اجل! دم لے تو کوئی دم تو
مونسِ تازہ ہیں یہ درد و الم
مُدتوں کا رفیق ہے غم تو
ذرا سی بات پہ اتنا جلال کیوں آیا
تعلقات کے شیشے میں بال کیوں آیا
کسی بزرگ کی صحبت ہے تم کو کیا معلوم
مِرے مزاج میں یہ اعتدال کیوں آیا
زمیں پہ آ گیا مغرور یہ خبر بھی ہے
ترقیات کو اس کی زوال کیوں آیا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
ہندو سمجھ کے مجھ کو جہنم نے دی صدا
میں پاس جب گیا تو نہ مجھ کو جلا سکا
بولا کہ تجھ پہ کیوں مِری آتش ہوئی حرام
کیا وجہ، تجھ پہ شعلہ جو قابو نہ پا سکا
کیا نام ہے، تُو کون ہے، مذہب ہے تیرا کیا
حیراں ہوں میں، عذاب جو تجھ تک نہ جا سکا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
شاہِ کون و مکاںؐ کا پیراہن
سیدِ انس و جاںؐ کا پیراہن
بے نواؤں کے واسطے راحت
یاورِ بے اماں کا پیراہن
اس کی برکت سے غم مٹے سارے
حامئ بے کساں کا پیراہن
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
حدیثِ نور
اس جلوہ گاہ میں ہے اسی ایک کا ظہور
٭اللہ آسمان کا ہے اور زمیں کا نور٭
اس کی مثال کہ ہے جیسے ایک طاق
روشن ہے اس میں ایک چراغ ابد رواق
خود وہ چراغ جیسے قندیل میں نہاں
قندیل اک ستارہ موتی سا ضوفشاں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
بات بنتی ہے تو کچھ بات بڑھا دی جائے
نعت کی بزم پھر اک بار سجا دی جائے
درد کے ماروں کو طیبہ کی فضا دی جائے
جانے والو! میری عرضی بھی سنا دی جائے
موت اک شرط پہ نزدیک نہیں آئے گی
جان سرکارؐ کی حرمت پہ لٹا دی جائے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
زمزم عشق سے دھو دھوکے نکھارے الفاظ
میں نے تب نعتﷺ کی تختی پہ اتارے الفاظ
جن کی جنبش سے بنے نور کے دھارے الفاظ
ان لبوں سے ہیں معنون مِرے سارے الفاظ
ڈال دوں گا سر میزان یہ نعتوں کی بیاض
پورا کر دیں گے مِرے سارے خسارے الفاظ
وہ مِرا سارے کا سارا تو نہیں ہو سکتا
اس طرح یار! گزارا تو نہیں ہو سکتا
مجھ سے چاہے جو مِرا ساتھ دمِ آخر تک
ایسے ساتھی سے کنارہ تو نہیں ہو سکتا
وہ نہ یوسف سا حسیں ہے نہ مجھے اس کی طلب
پھر بھی اس بِن کوئی چارہ تو نہیں ہو سکتا
ہر دریچہ دُھواں اُگلتا ہے
بند کمرے میں کون جلتا ہے
چیونٹیوں کے بھی پر نکل آئے
کون پیدل زمیں پہ چلتا ہے
آسماں چُھو نہیں سکے گا کبھی
روز دِیا مگر اچھلتا ہے
نکل مت گھر سے تو اے خانہ آباد
کیا اب ہم نے بھی ویرانہ آباد
قبول ہو گا کہیں تو سجدہ اپنا
رہیں یہ کعبہ و بت خانہ آباد
ہمارا ہی رہے اک جام خالی
مغاں رہیو تِرا مے خانہ آباد
شرف یہ آج ملا غم تمام کے بعد
کہ نام آنے لگا میرا ان کے نام کے بعد
رہا نہ کوئی بھی محروم دورِ جام کے بعد
میں کیا کروں کہ میں تشنہ ہوں اذن عام کے بعد
نہ جانے کیسی پلائی تھی تم نے نظروں سے
خمار باقی ہے ترکِ سبُو و جام کے بعد
شیخ کو کعبے سے جو مقصود ہے
وہ کنشتِ دل ہی میں موجود ہے
میرے جلنے کی کسی کو کیا خبر
سوزشِ دل آتش بے دُود ہے
نے حرم سے کام ہے نے دیر سے
خانۂ دل ہی مِرا مسجود ہے
ستم کا تیر جو ہے وہ تِری کمان میں ہے
جو کہہ چکا ہوں میں وہ ہی مِرے بیان میں ہے
میں خالی جسم ہی گھر سے نکل کے آیا ہوں
مِری جو جان ہے، اب بھی اسی مکان میں ہے
اسی لیے تو سبھی ہم پہ ہو گئے حاوی
یہ پھوٹ آپسی جو اپنے خاندان میں ہے
ساجد کی بِدائی ہے اب جشن منا ہمدم
اب شوق سے ماتھے پر سندور سجا ہمدم
دیدار ذرا مجھ کو اک بار کرا دے بس
پھر شوق سے مٹی میں مجھ کو تُو سُلا ہمدم
مجرم ہوں تِرا میں تو نظروں سے گِرانا کیا
دے ایسی سزا مجھ کو مل جائے قضا ہمدم
چند تنکے تھے جو انجم آشیانے کے لیے
برق ان کو بھی چلی آئی جلانے کے لیے
آرزوئیں، حسرتیں، وعدہ و پیمان وفا
سرخیاں کتنی ملی ہیں اک فسانے کے لیے
عمر بھر روتے رہے اشکوں سے دامن تر رہا
عمر بھر ترسا کیے ہم مسکرانے کے لیے
تُو ذرا کان تو لگا میرے ساتھ
پھر اگر گا سکے تو گا میرے ساتھ
میرے اندر سے ایک شور اٹھا
اور رونے لگی ہوا میرے ساتھ
میں نے دل ڈوبتے ہوئے دیکھا
یعنی یہ خواب بھی گیا میرے ساتھ
منزل کا محبت میں کہیں نام نہیں ہے
آغاز ہی آغاز ہے،۔ انجام نہیں ہے
صیّاد یہ کیونکر کہوں، آرام نہیں ہے
جو کل تھی تڑپ آج تہِ دام نہیں ہے
نظارے سے ہاں اور بھی دل ہوتا ہے بیچین
بے آپ کے دیکھے بھی تو آرام نہیں ہے
پھر تسلسل مِری سوچوں کا بکھر جائے گا
وہ تصوّر میں مِرے ساتھ ہی مر جائے گا
ہاتھ میں ٹھہرا ہوا لمحہ بکھر جائے گا
“وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے، گزر جائے گا”
جس کی خاطر ہے کِیا میں نے سفر صدیوں کا
کیا مِرے واسطے کچھ پل وہ ٹھہر جائے گا
کچھ محبت میں عجب شیوۂ دلدار رہا
مجھ سے انکار رہا غیر سے اقرار رہا
کچھ سروکار نہیں جان رہے یا نہ رہے
نہ رہا ان سے تو پھر کس سے سروکار رہا
شبِ خلوت، وہی حجت، وہی تکرار رہی
وہی قصہ، وہی غصہ، وہی انکار رہا
بند دروازوں پر بھکاری
ہم فٹ پاتھیے بھکاری ہیں
بڑے بڑے اسپتالوں میں
خوبصورت نرم و نازک نرسوں کے
سڈول ہاتھوں میں نہیں
سڑکوں کے کُھردرے پتھروں پر
کیوں اس کو سمجھ میں یہ اشارے نہیں آتے
گر خشک ہوں تالاب،🐦 پرندے نہیں آتے
سج دھج کے مِرے دل میں اترتے ہو سرِ شام
ویران گھروں میں کبھی ایسے نہیں آتے
اک ساتھ سبھی کچھ تو نہیں ملتا یہاں پر
پھل آئیں جو حصے میں تو سائے نہیں آتے
ہے عمرِ کُہن جینے کے آداب نئے ہیں
آنکھیں تو پرانی ہیں مگر خواب نئے ہیں
اب تک انہیں، گلچیں کی شقاوت نہیں معلوم
یہ پھول ابھی کُنج میں شاداب نئے ہیں
شاید نہ کریں، اونچی حویلی سے رعایت
بستی سے گزرتے ہوئے سیلاب نئے ہیں
آنکھوں میں مِری ابر رواں اور طرح کے
دل میں بھی کئی دشت تپاں اور طرح کے
ہیں یاس تِرے تیر و کماں اور طرح کے
لفظوں کے سپر میرے یہاں اور طرح کے
احباب سناتے ہیں کوئی اور کہانی
ہیں میرے حریفوں کے بیاں اور طرح کے
کیا ہے میرے دل کی حالت واقعی کیسے کہوں
کیوں ہے میری آنکھ میں اتنی نمی کیسے کہوں
میری اک اک سانس پہ حق ہے مِرے اللہ کا
میں بھلا اس زندگی کو آپ کی کیسے کہوں
کون ہے میرا مخالف کس نے کی ہے مخبری
جانتا ہوں میں بتاؤں گا ابھی کیسے کہوں
اک پگلی گھر سے بھاگ گئی
اندھیری رات میں
ایک گھٹڑی سنبھالے
چند زیوراور کچھ کپڑے لیے
اک پگلی گھر سے بھاگ گئی
ماں کے جُھریوں زدہ چہرے پر
درد دل میں اگر نہیں ہوتا
دامنِ یار تر نہیں ہوتا
مصلحت کچھ تو ہو گی ورنہ وہ
اجنبی جان کر نہیں ہوتا
دل نہ ہوتا اگر مِرا ذی حِس
حسرتوں کا کھنڈر نہیں ہوتا
وہ میرا مان ہوتا جا رہا ہے
سو دل حیران ہوتا جا رہا ہے
ہمیں کچھ ملنے والا ہے یہاں سے
قوی امکان ہوتا جا رہا ہے
کسی کو کیا خبر ہے بے حسی میں
بڑا نقصان ہوتا جا رہا ہے
اک بار کی نہیں، ہے یہ ہر بار کی سزا
تا عمر اب ملے گی مجھے پیار کی سزا
جلنے لگا ہے طور کی مانند سارا جسم
کتنی حسین ہے تِرے دیدار کی سزا
سینچا ہے ہم نے اپنے لہو سے وطن کاباغ
اور دے رہے ہیں وہ ہمیں غدار کی سزا
دن کے اجالے میں رات ڈھونڈتے ہو
سمندروں میں قطرۂ حیات ڈھونڈتے ہو
پڑھ کر کتابیں📚 ہزار دوستو
پتھروں میں خدا کی ذات ڈھونڈتے ہو
اور کرنے کے لیے مراسم ترک
کوئی چھوٹی سی بات ڈھونڈتے ہو
کہیے کن لفظوں میں اشکوں کی کہانی لکھوں
معترض آپ لہو پر ہیں تو پانی لکھوں
ان کو اپنا سا لگے، اور ہو قصہ میرا
دل کی خواہش ہے کہ اک ایسی کہانی لکھوں
داغ جتنے بھی ہیں گلزارِ تمنا میں میرے
پھول کی طرح انہیں تیری نشانی لکھوں
دل کے مریض ذہن کے بیمار کیوں ہوئے
زلفوں سے کھیلتے تھے سر دار کیوں ہوئے
چلمن میں اضطراب کی اک کیفیت تھی کیوں
جلوے نظر کے ساتھ گناہگار کیوں ہوئے
دیوانہ اپنے آپ سے کرتا تھا کچھ کلام
لیکن یہ زرد آپ کے رخسار کیوں ہوئے
خط اس نے زمانہ ہوا لکھا بھی نہیں ہے
وہ روٹھ گیا مجھ سے ہو ایسا بھی نہیں ہے
کیوں تلخ بتایا ہے اسے حضرت واعظ؟
جس مے کو کبھی آپ نے چکھا بھی نہیں ہے
اچھا ہوا فنکاروں نے دوکان بڑھا دی
اس شہر میں اب دیدۂ بینا بھی نہیں ہے
رہی جبیں نہ رہا سنگِ آستاں باقی
جنوں کی آگ بجھی رہ گیا دھواں باقی
میں کس کو حالِ پریشاں سناؤں کون سنے
کہاں ہے شہر میں اب کوئی ہمزباں باقی
یہ ساعتیں ہیں غنیمت گزار لیں ہمراہ
نہ پھر زمین نہ ہو گا، یہ آسماں باقی
وہ جو راستے پہ بکھر گئے، وہی منزلوں پہ سنور گئے
جنہیں زندگی نے رلا دیا، وہ تو ہستے ہستے ہی مر گئے
وہ جو دھوپ میں بھی تھے چھاؤں سے، جو تھے سرد جھونکے ہواؤں کے
جو تھے لوگ پتلے وفاؤں کے، وہی لوگ جانے کدھر گئے
نہ کسی کے دل میں جگہ ملی، نہ کسی سرائے پناہ ملی
جو نہ کوئی ہم کو وفا ملی، تو لٹے لٹائے ہی گھر گئے
ہے اب وہ بھی دستِ خریدار میں
خدا کی دُکاں بھی ہے بازار میں
زمیں آج وہ مانگنے آئی ہے
جو اُس کی امانت ہے بیمار میں
خزاں کا بھی ایسا نہیں کوئی زور
جو کھو جاؤں پتّوں کے انبار میں
دل ہے وابستہ مِرا حسرت ناکام کے ساتھ
تازہ ہو جاتے ہیں سب زخم تِرے نام کے ساتھ
اس نے ہر حلقِ تمنا پہ چلایا خنجر
یوں ہے پیکار مِری گردشِ ایام کے ساتھ
دردِ الفت مِرا کرتا ہے ترنم ریزی
کرنیں رو رو کے گلے ملتی ہیں جب شام کے ساتھ
زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد
مل گیا وہ پھر کہیں دل کے ٹھہر جانے کے بعد
میں نے وہ لمحہ پکڑنے میں کہاں تاخیر کی
سوچتا رہتا ہوں اب اس کے گزر جانے کے بعد
کیسا اور کب سے تعلق تھا ہمارا کیا کہوں؟
کچھ نہیں کہنے کو اب اس کے مُکر جانے کے بعد
جیون
روپ ڈھلے کچھ دیر لگے نہ
عمر ڈھلے نہ دیر
موج بہے ہے موج کے اوپر
ریت بنے ہے ڈھیر
مور بے چارہ رُوپ نہارے
پَیر پہ آ کے زیر
وہ یہ کہتے ہیں زمانے کی تمنا میں ہوں
کیا کوئی اور بھی ایسا ہے کہ جیسا میں ہوں
اپنے بیمار محبت کا مداوا نہ ہوا
اور پھر اس پہ یہ دعویٰ کہ مسیحا میں ہوں
عکس سے اپنے وہ یوں کہتے ہیں آئینہ میں
آپ اچھے ہیں مگر آپ سے اچھا میں ہوں
کیا خبر کب سے پیاسا تھا صحرا
سارے دریا کو پی گیا صحرا
لوگ پگڈنڈیوں میں کھوئے رہے
مجھ کو رستہ دکھا گیا صحرا
دھوپ نے کیا کیا سلوک اس سے
جیسے دھرتی پہ بوجھ تھا صحرا
عشق ہونا تو تھا جوانی میں
کس نے ترمیم کی کہانی میں
ہم کو رکھا گیا نشانے پر
زخم بھیجے گئے نشانی میں
میں کہانی میں تم پہ مرتا تھا
جھوٹ ہوتا ہے سب کہانی میں
میں جنت سے اس پر نکالا گیا تھا
مِرے منہ میں بس اک نوالا گیا تھا
تُو وہ بات ہے دب کے جو رہ گئی ہے
میں وہ قِصہ ہوں جو اچھالا گیا تھا
دھماکا ہوا تھا اندھیرے میں جس دم
بڑی دُور تک پھر اُجالا گیا تھا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام؛ بیان بر سراپائے پاکﷺ
چشمِ عالم نے حسیں کوئی نہ دیکھا ایسا
رب نے پیدا کیا حضرتؐ کا سراپا ایسا
پست آتے ہیں نظر سَرو قدانِ عالم
معتدل طول میں بھی ہے قدِ بالا ایسا
مظہرِ جلوۂ اللہ جمیل کہیے
میرے سرکارؐ کا ہے حسن دلآرا ایسا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام بر آقائے نامدار ختم المرسلینﷺ
سلام اے شاہِ انبیاء، سلام ختمِ مرسلیںﷺ
سلام امیرِ امرِ حق، سلام شفیع مذنبیںﷺ
گڑے ہوئے ہیں ہر طرف تیرے وقار کے علم
جھکی ہوئی ہے تیرے در پہ کائنات کی جبیں
کلامِ حق سنا رہا ہے آیۂ عنِ الھویٰ
صدائے ربِ ذوالمنن تیری صدائے دلنشیں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
دل سے آقا کی ہو توقیر تو ہو جاتی ہے نعت
ہو خیالات میں تطہیر تو ہو جاتی ہے نعت
درس گہِ نعت کی لاریب ہے قرآن عظیم
پائیں قرآن سے تنویر تو ہو جاتی ہے نعت
صرف الفاظ و معانی سے نہیں کچھ حاصل
جب عمل کی بھی ہو تاثیر تو ہو جاتی ہے نعت
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
وہ رختِ سفر جس میں فقط اذنِ سفر ہو
اور اگلے قدم آپﷺ کی دہلیز پہ سر ہو
وہ شخص کہ منزل ہی جسے راہگزر ہو
کب اس کی تمنا ہے کہ اس شہر میں گھر ہو
اس دن کی طلب میں ہے یہ سانسوں کی اذیت
جس دن یہ مدینے سے صدا آئے کدھر ہو
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
عظیم الشان ہے شانِ محمدﷺ
خدا ہے مرتبہ دانِ محمدﷺ
کتب خانے کیے منسوخ سارے
کتابِ حق ہے قرآنِ محمدﷺ
نبیؐ کے واسطے سب کچھ بنا ہے
بڑی ہے قیمتی جانِ محمدﷺ
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
یہاں محمدﷺ وہاں محمدﷺ، اِدھر محمدﷺ اُدھر محمدﷺ
جہاں بھی دیکھا نگاہِ دل نے، وہیں پہ آئے نظر محمدﷺ
اگر محبت سے کر دیں اپنی نگاہِ معجز اثر محمدﷺ
خزاں کو رنگِ بہار دے دیں خذف کو کر دیں گُہر محمدﷺ
بشر یقیناً ہیں لیکن ایسے ہیں عالی منصب بشر محمدﷺ
زمین پر ہیں اور آسماں کی سنا رہے ہیں خبر محمدﷺ
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
قدم قدم پہ خدا کی مدد پہنچتی ہے
درود سے میرے دل کو رسد پہنچتی ہے
یہ آسماں بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا
جہاں تک آپ کے قدموں کی حد پہنچتی ہے
سر اپنا پائے رسالت مابؐ پر رکھ دوں
تو آسماں پہ بلندئ قد پہنچتی ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
تمہیں مِل گئی اِک خدائی حلیمہ
کہ ہے گود میں مصطفائیؐ حلیمہ
یہ کم ہے تمہاری بڑائی حلیمہ
زمانے کے لب پہ ہے مائی حلیمہ
بہت لوریاں دِیں مہِ آمنؓہ کو
کہاں تک ہے تیری رسائی حلیمہ
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
میں کلمہ گو ہوں خاص خدا و رسولِ کا
آتا ہے بامِ عرش سے مژدہ قبول کا
وہ پاک، بے نیاز تجسم سے ہے بری
محتاج فوق و تحت، نہ وہ عرض و طول کا
انسان سے بیاں ہوں کیوںکر صفات ذات
ایسا کہاں ہے ذہن ظلوم و بہول کا
چوٹ لگتی ہے اگر
کتنے ہی صاحبِ دل، اہلِ نظر، اہلِ قلم
اک زمانے سے یوں ہی لکھتے چلے آئے ہیں
وہی اک قصۂ دلدوز کہ جو صدیوں سے
ہے رواں مفلس و زردار کے بیچ
ایک اک حرف لکھا خونِ جگر سے لیکن
تم فسانہ نہیں حقیقت ہو
میرے دل کی تمہی تو چاہت ہو
کیا بتاؤں میں زندگی کا حساب
تم خوشی ہو، تمہی تو وحشت ہو
جب بھی بولوں تو خوں نکلتا ہے
ہجر میں یوں نہ تیری حالت ہو
محبت سے بھرے الفاظ کو پتوار کر لوں گا
تِرے خط کو بنا کر ناؤ، دریا پار کر لوں گا
محبت کے سفر میں دونوں کی یکساں ضرورت ہے
اگر ٹوٹا یہ دل، آنکھوں کو بھی مسمار کر لوں گا
بڑی عجلت میں ہوں قدموں کو زحمت کون دیتا ہے
بلندی کے لیے زینے کو میں خودکار کر لوں گا
أفکار پریشاں
چاک ہو دل تو ہی غزلوں میں اثر ہوتا ہے
میرا ہر شعر، میرے غم کا ثمر ہوتا ہے
شب کو اٹھ اٹھ کے دعاؤں میں تجھے مانگا ہے
لوگ کہتے ہیں دعاؤں میں اثر ہوتا ہے
یوں ہی کرتی ہے غزل اس کی ترنم گرچہ
اس کے اشعار میں انداز نثر ہوتا ہے
اداسیوں کا مسلسل یہ دور چلنا ہے
نہ کوئی حادثہ ہونا نہ جی بہلنا ہے
وہ اور ہوں گے مِلا جن کو روشنی کا سفر
ہمیں تو بُجھتے چراغوں کے ساتھ چلنا ہے
یہ ڈھلتی عمر کے رستے بہت تھکا دیں گے
قدم قدم پہ نیا راستہ نکلنا ہے
یہ ہماری زمیں، وہ تمہاری زمیں
سرحدیں کھا گئی ہیں یہ ساری زمیں
تیری خاطر ہی کٹوائے سر بے شمار
قیمت ایسی چُکا دی ہے بھاری زمیں
آنکھ اُٹھی بھی نہ تھی تیری جانب ابھی
ضرب سینوں پہ لگوا دی کاری زمیں
آنکھ میں گر نمی نہیں ہوتی
درد میں بھی کمی نہیں ہوتی
کچھ اندھیرے کا پاس بھی رکھو
ہر جگہ روشنی نہیں ہوتی
وہ بھی چپ چپ ادھر بھی خاموشی
اس طرح عاشقی نہیں ہوتی
دل ہے کہ دِیا ہے، کیا ہے آخر
کچھ جل تو رہا ہے، کیا ہے آخر
شاید یہ کمال ہجر کا ہو
کیوں درد اٹھا ہے، کیا ہے آخر
کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے
کیوں اس کا ہوا ہے، کیا ہے آخر
ہر ایک دور میں حق کے نقیب ہیں ہم لوگ
قسم خدا کی بڑے خوش نصیب ہیں ہم لوگ
یہ اور بات، ہم اس کو رفیق سمجھے تھے
یہ اور بات، وہ سمجھا رقیب ہیں ہم لوگ
زبان کاٹ نہ لے شب کا شہریار کہیں
خطا یہ ہے کہ سحر کے خطیب ہیں ہم لوگ
یہ غزل پڑھ کر کچھ کچھ سمجھ آیا کہ عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی کے دردیلے گیتوں کی کیا وجہ ہو سکتی ہے
پڑ گیا ہوں آ کے میں بیمار عیسیٰ خیل میں
خوش ہے مجھ کو بھیج کر سرکار عیسیٰ خیل میں
ذرے ذرے سے ٹپکتی ہے یہاں بے گانگی
اجنبی سے ہیں در و دیوار عیسیٰ خیل میں
میٹھے پانی کو ترستے ہیں یہاں کے مرد و زن
زندگی ہے وادئ پُر خار عیسیٰ خیل میں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
کر اے ہندو بیاں اس طرز سے تُو وصف احمدؐ کا
مسلمان مان جائیں لوہا سب تیغِ مہنّد کا
جدا کیا لام دلو رام ہے میم محمدﷺ سے
تعلق سو طرح کا ہے مشدد سے مشدد کا
یہی ہر چار عنصر کا اشارہ ہے کہ لے رستہ
مدینے کا، نجف کا، کربلا کا اور مشہد کا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
بلوائیں مجھے شاد جو سلطانِﷺ مدینہ
جاتے ہی ہو جاؤں گا قربانِ مدینہ
وہ گھر ہے خدا کا تو یہ محبوبِؐ خدا ہیں
کعبے سے بھی اعلیٰ نہ ہو کیوں شانِ مدینہ
کھولے سرِ جنت کو یہی کہتا ہے رضوان
بے خوف چلے جائیں غلامانِ مدینہ
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
پہلے درودﷺ پڑھ کے ستارے سے بات کی
پھر اس کے بعد میں نے مدینے میں رات کی
بے شک بس ایک نقشِ کفِ پا ہے آپ ص کا
نظریں جُھکی ہوئی ہیں جہاں کائنات کی
دراصل یہ طواف ہے شہرِ رسولﷺ کا
گردش سمجھ رہے ہو جسے شش جہات کی
حدیثِ پاک کے تناظر میں کہا گیا ایک کلام
پھر ایک بھوکا شخص جاں بلب ہوا، غضب ہوا
کہ شہر پر نزولِ قہر رب ہوا، غضب ہوا
تمام ہوشمند ہونٹ سی کے جاں بچا گئے
دِوانہ لب ہلا کے بے ادب ہوا، غضب ہوا
سبب تھا جو عروج کا اسی سے ربط ختم ہوا
تِرے زوال کا یہی سبب ہوا، غضب ہوا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
دور ہوں انؐ سے، سزا ہے یہ بھی
پاس ٹھہروں انؐ کے دعا ہے یہ بھی
اہلِ نسبت کو وہﷺ پہچانتے ہیں
میرے مولا کی عطا ہے یہ بھی
اور کیا نکہتِ فردوسِ بریں
بس مدینے کی ہوا ہے یہ بھی
عارفانہ کلام حمدیہ کلام
فریاد
فریاد سن فقیر کی اے ربِ ذوالجلال
فانی ہر ایک شے ہے تِری ذات کو دوام
ربِ قدیر!! مالکِ لوح و قلم ہے تُو
قبضے میں تیرے گردشِ حالات کی زمام
یا سائر العراب و یا غافر الذنوب
رحمت کی نظر بہ طفیلِ شہِ انامؐ
اختتام
تم خواب میں ملے
میرا ہاتھ تھاما
اور ہتھیلی پر ایک پھول پر رکھ دیا
جب میں جاگی
پھول بکھر چکا تھا
ہم بھی کچھ دن ہی اداسی کا بھرم رکھیں گے
اور کچھ کھیل دکھائیں گے، چلے جائیں گے
مجھ کو معلوم ہے مرنے کی سہولت یارو
لوگ کاندھوں پہ اٹھائیں گے، چلے جائیں گے
میرے احباب جو کرتے ہیں محبت مجھ سے
وہ بھی آنسو ہی بہائیں گے، چلے جائیں گے
اے میرے ہمدمو، اے با اصولو
میں جیسا ہوں، مجھے ویسا قبولو
یوں فارغ بیٹھنا بھی خوب، لیکن
ذرا ُاٹھو، ستاروں کو ہی چُھو لو
تمہاری پھر ضرورت پڑ رہی ہے
گئے وقتوں کے اے سچے رسولو
پچھتاوا
دل کے ویران کھنڈر میں
اک شجر کے تلے
ایک اجڑی لحد
چیختی ہے سنو
ہائے، آئے ہو اب
آج تو وہ فضائے وحشت ہے
جس کے جو جی میں آئے وحشت ہے
دل برائے فروخت ہے یعنی💔
خالی جائے برائے وحشت ہے
اپنی مٹی اڑا کے دیکھیے گا
کس طرف کو ہوائے وحشت ہے
خون کی حِدتوں میں اُتری ہے
اک اداسی رگوں میں اتری ہے
کیا خبر ہے کہ دن کہاں بچھڑا
رات کب کھڑکیوں میں اتری ہے
جو مسافت بھی پاؤں سے الجھی
بے جہت راستوں میں اتری ہے
ایک مصرعہ بھی اگر لکھا گیا
یوں سمجھ لو دن بہت اچھا گیا
کم سِنی، محرومیاں، حساسیت
دل گیا، بچپن گیا، چہرہ گیا
اپنی سب ناکامیاں یاد آ گئیں
نام اس کا جب بھی دہرایا گیا
اشک آنکھوں میں چھپایا نہیں جاتا
بارِ غم بھی تو اٹھایا نہیں جاتا
یاد ہیں ظلم سبھی ان کے مجھے پر
خون اپنوں کا گرایا نہیں جاتا
یہ کسے سونپ دیا ہم نے چمن اب
پھول تک جس سے بچایا نہیں جاتا
منزل کو زرا جان مِرے دیس کے راہی
دریا نہ بہے حد میں تو کرتا ہے تباہی
اب طے ہے کہ ہم دور رہیں زندہ رہیں گے
اب دیس میں پھیلی ہے وباؤں کی سیاہی
ابلیس کا حملہ یہ ہمیں ڈر میں ہے درپیش
اب رن میں نہیں جنگ ہمیں گھر میں ہے درپیش
ہم ایسے رندوں سے دوستی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
شراب خانے میں شیخ بھی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
ہم ایک ایسی بھرشٹ دنیا میں اپنا جیون بتا رہے ہیں
جہاں جہالت ہی آگہی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
بُتانِ مغرب کی بے حیائی نئے کرشمے دکھا رہی ہے
درونِ مشرق برہنگی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
خونِ نا حق کا سمندر نہیں دیکھا جاتا
اب تباہی کا یہ منظر نہیں دیکھا جاتا
جب سے ہے قید حِصاروں میں تکبر کے انا
خود سے اونچا کوئی پیکر نہیں دیکھا جاتا
جانے کب کون ہمیں دیش نکالا دے دے
سر پہ لٹکا ہوا خنجر نہیں دیکھا جاتا
ساری دنیا میں ہے کس طرح کا منظر یارا
اپنے ہی گھر میں ہے ہر آدمی ڈر کر یارا
ایک بے چینی سی ہے قلب کے اندر یارا
میری تنہائی ہے اب بزم سے بڑھ کر یارا
پیار کب رہتا ہے بندش میں ٹھہر کر یارا
بڑھتا ہی جاتا ہے یہ حد سے گُزر کر یارا
بعد مدت کے تری یاد کے بادل برسے
وہ بھی ایسے کہ کئی روز مسلسل برسے
منتظر اور بھی صحرا ہیں اسی بادل کے
صرف تجھ پر ہی بھلا کیسے یہ ہر پل برسے
پیاس اس شہر کی بُجھنے کا یہی رستہ ہے
بن کے بادل کسی درویش کی چھاگل برسے
چونکہ تیرے بِنا گزارہ نہیں
اس لیے بھی تجھے پکارا نہیں
زِندگی ایک بار ہے، یعنی
لطف یہ پھر کبھی دوبارہ نہیں
تیری صورت کو بھی ترستے تھے
اب تیرا ذکر بھی گوارا نہیں
چلے تھے آگ جلانے یہاں ہے راکھ ملی
مملکت خداداد میں کہاں غیر کو ساکھ ملی
وہ جو کہتے ہیں سپر ہیں وہ دنیا بھر کے لیے
ملی نہ عزت انہیں اور ذلت ہر پل لاکھ ملی
خدا ہی مالک ہے ہر چار و ناقص کا مگر
اس کے ماننے والوں کو ہمیشہ ہی ساکھ ملی
ڈھونڈ پائے نہ کبھی ہم دلِ انساں جاناں
ہائے کس سِیپ میں رکھا ہے یہ مرجاں جاناں
ہم کہاں بُھولے تِرا روئے نگاراں جاناں
روز سجتا ہے اسی سے تو شبستاں جاناں
شعلۂ یاد پہ رہنے لگا رقصاں جاناں
ہائے تڑپا ہے یہ کتنا دلِ ناداں جاناں
اس کی چاہت میں عجب دل کو سکوں ہے یوں ہے
وہ جو کہتا تھا محبت کو کہ؛ یوں ہے، یوں ہے
یہ جو ہم ایک فلک سر پہ لیے پھرتے ہیں
اس کی بنیاد نہ دامن میں ستوں ہے، یوں ہے
ورنہ، میں کب تھا کسی جادو گری کا قائل
یہ تو اس آنکھ نے کھولا کہ فسُوں ہے، یوں ہے
نرم لہجے میں تحمل سے ذرا بات کرو
پھر بصد شوق سرِ عام مجھے مات کرو
یا نثار آج کرو مجھ پہ تمام اپنے ہُنر
یا نظر بند مِرے سارے کمالات کرو
میں روایات سے باغی تو نہیں ہوں لیکن
تم سے ممکن ہو تو تبدیل خیالات کرو
یہ جو رانجھا قیس اور فرہاد ہیں
عاشقوں کے آباء و اجداد ہیں
کل پرندے ہی پرندے تھے یہاں
اب فقط صیاد ہی صیاد ہیں
سب نہ سمجھے بے ثمر پیڑوں کے دُکھ
بس وہی سمجھے جو بے اولاد ہیں
سرحد
کیا خوب ہو گر اس دنیا سے
سرحد کا نام ختم ہو جائے
سارے دیس، سب کے دیس ہوں
روح کو جسم
اور جسم کو روح سے ملنے کے لیے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
لب پہ ہر دم حمدِ باری اور نبیﷺ کا نام ہو
اے خدا! یہ مشغلہ میرا بھی صبح و شام ہو
اور مجھ سے دُور کوسوں گردشِ ایّام ہو
لب پہ ہر دم حمدِ باری اور نبیﷺ کا نام ہو
ہو گا اُنؐ کے فیض سے حاصل شعورِ زندگی
اُسوۂ آقاﷺ اگر بن جائے نورِ زندگی
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
یا خدا حسنِ تخیّل کو نکھر جانے دے
منظرِ شہرِ نبیؐ آنکھ میں بھر لانے دے
جس سے ہر لفظ ہی مقبول مِرا ہو جائے
نعت کہنے کا مدینے میں شرف پانے دے
کوئی جا کر مِرے بارے میں خبر دے یہ انہیںؐ
ٹھوکریں اپنے دیوانے کو تو مت کھانے دے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
پردے اٹھے نگاہ سے ہر شے نکھر گئی
تنویر صبح رات کے رخ پر بکھر گئی
دشت وجبل سے نور کے کوندے لپک پڑے
کلیوں کے جام پھولوں کے ساغر چھلک پڑے
برگ و شجر نہال ہوئے، جھومنے لگے
آپس میں ایک ایک کا منہ چومنے لگے
بہشتِ زر کے مکینوں کو آزماتا ہے
مفاد، سارے کمینوں کو آزماتا ہے
تمہارے گھر کے مقابل ہی ایک مسجد ہے
خدا بھی کیسے جبینوں کو آزماتا ہے
دل و دماغ و بدن سب ایک جا کر کے
کبھی کبھی تو وہ تینوں کو آزماتا ہے
جو ہے پس چشم نم مجھے دے دو
اپنے سارے رنج و غم مجھے دے دو
زندگی کی سہل راہوں پر چلا کرو تم
راستے کے کٹھن پیچ و خم مجھے دے دو
علم و آگہی کے اس دور جمود میں یارو
بے روشنائی میں پڑے سوکھے قلم مجھے دے دو
عارفانہ کلام حمدیہ کلام
ناقص مِرا شعور ہے، عاجز مِرا کمال
میں بندۂ ذلیل ہوں، تُو رب ذوالجلال
تعریف آفتابِ جہاں تاب کی کرے
اک ذرۂ حقیر کی کیا تاب، کیا مجال
تُو ہے کہ قدرتوں کی تِری حد ہے نہ حساب
میں ہوں کہ ایک قیدئ زندانِ ماہ و سال
سچ بتا
اے خدا
کیسے میں مانوں کہ مٹی سے بنی ہے ماں بھی
خاک تو فانی ہے، مِٹ جاتی ہے
اور لافانی کو فانی میں کیسے مانوں؟
سچ بتا، کون چُھپا ہے اس میں؟
اے بتِ نا آشنا کب تجھ سے بیگانے ہیں ہم
تُو اگر اس بزم میں مے ہے تو پیمانے ہیں ہم
بوسہ لیویں یا گلے لگ جائیں، آزردہ نہ ہو
چاہنے والے ہیں اور دیوانے مستانے ہیں ہم
کب الم اور حسرتیں اپنی کہیں اے دوستاں
رات کو بلبل ہیں ہم اور دن کو پروانے ہیں ہم
انا کی کرچیوں پر چل رہا ہوں
کچھ ایسی بے کسی سے پل رہا ہوں
ازل سے یونہی افسردہ نہیں میں
کبھی میں شوخ اور چنچل رہا ہوں
مسائل اب جو مجھ کو گھیرتے ہیں
میں خود ان مسئلوں کا حل رہا ہوں
جلا وطن شہزاد گان کا جشن
قبر کی مٹی چرا کر بھاگنے والوں میں ہم افضل نہیں
ہم کوئی قاتل نہیں
بسمل نہیں
منجمد خونیں چٹانوں پر دو زانو بیٹھ کر
گھومتی سُوئی کے رستے کی صلیبوں سے ٹپکتے
حسیناؤں کو مشورہ
حسینو! اگر تم کو ہے پاس عزت
تو سن لو سناتا ہوں شاعر کی فطرت
نہ مانو گی میری تو پُھوٹے گی قسمت
رہے گی مقدر میں ذِلت ہی ذِلت
جو اسرار کہتا ہے وہ مان لو تم
یہ کیسے فریبی ہیں یہ جان لو تم
سوئی آنکھوں میں جاگتی دنیا
کیا عجب تھی وہ خواب کی دنیا
کیسے میرے خلاف جائے گی
یہ مِرے ہاتھ سے بنی دنیا
نام تیرا ابھر کے آیا ہے
میں نے کاغذ پہ جب لکھی دنیا
وہ پریشانی سرِ دشتِ عدم ہے ہم کو
باغِ رضوان بھی مل جائے تو کم ہے ہم کو
اب بھی دل میں تِرے ہونے کا گماں باقی ہے
ٹوٹتے بنتے ارادوں کی قسم ہے ہم کو
اس کو کہتے ہیں میاں! زخم کا تازہ ہونا
وہ کسی اور سے بچھڑا ہے تو غم ہے ہم کو
بات اب آئی سمجھ میں کہ حقیقت کیا تھی
ایک جذبات کی شدت تھی، محبت کیا تھی
اب یہ جانا کہ وہ دن رات کے شکوے کیا تھے
اب یہ معلوم ہوا وجہِ شکایت کیا تھی
کوئی اک شوخ اشارہ ہی بہت تھا اے دوست
اتنے سنجیدہ تبسم کی ضرورت کیا تھی
یہ زندگی ہے مِری رب کی بندگی کے لیے
جبیں کو در پہ جھکایا ہوں بہتری کے لیے
ہیں آج جگ میں پریشاں وہ ہر جگہ دیکھو
جہاں میں بھیجا جنہیں رب نے سروری کے لیے
رگوں کے خون میں پنہاں ہے دیش کی الفت
لڑیں گے تم سے سدا امن و آشتی کے لیے
عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ امام حسینؑ
نوکِ سناں پہ کون یہ قاری سوار ہے
شبیرؑ انقلاب کا پروردگار ہے
پھیلے ہوئے ہیں نوحے فضاؤں میں آجکل
عالم تمام غم میں تِرے اشکبار ہے
زینبؑ پکار اٹھی، مِرے بھائی! تیری خیر
خیموں میں خالی آیا تِرا راہوار🐎 ہے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
محشر میں دی فرشتوں نے داور کو یہ خبر
ہندو ہے ایک احمدِؐ مرسلﷺ کا مدح گر
ہے بت پرست اگرچہ وہ لیکن ہے نعت گو
احمدﷺ کی نعت لکھتا ہے دنیا میں بیشتر
ہے نام دلو رام، تخلص ہے کوثری
لے جائیں اس کو خُلد میں یا جانبِ سقر
عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام حسینؑ
ذکرِ شبیرؑ ہے آسان یہی مشکل ہے
کیسے لکھے کوئی قرآن بڑی مشکل ہے
فکرِ شبیرؑ کا عرفان ابھی مشکل ہے
سوچے جس رخ سے بھی انسان نئی مشکل ہے
سرحدِ ذکر جو عرفان کی سرحد ٹھہرے
ذکرِ فرزندِ علیؑ ذکرِ محمدﷺ ٹھہرے
عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام حسینؑ
وہاں جو چاند اور تاروں میں اترا
یہاں وہ تیر و تلواروں میں اترا
بٹھایا تھا جسے دوشِ نبیﷺ پر
بلا کی ریت پہ خاروں میں اترا
تِرے دِیں کو بچانے والا آخر
تِرے تکبیر کے نعروں میں اترا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
چاہوں بھی تو کیسے کوئی نعت لکھوں
مدحت میں سرکارؐ کے کوئی بات لکھوں
کوئی طاہر و طیب لفظ ملے تو نعت لکھوں
قلم ایسا جو زم زم سے دھلے تو نعت لکھوں
کاپی کا کوئی پاکیزہ پنا کھلے تو نعت لکھوں
مدحت میں کوئی شعر ڈھلے تو نعت لکھوں
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
چاہتے ہو کہ کہیں نور برستا دیکھو
جا کے اک بار ذرا شہر مدینہ دیکھو
جسم کو روح کو یک لخت لرزتا دیکھو
سامنے نظروں کے جب گنبد خضرا دیکھو
لوٹ کر روضۂ اقدس سے یہ ہوتا دیکھو
دل جگر ذہن سبھی اپنے کشادہ دیکھو
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
دل و نظر میں بسا لوں، مدینہ شہر کی خاک
متاع زیست بنا لوں مدینہ شہر کی خاک
حضورﷺ آپ کے لطف و کرم سے ہے ممکن
میں ایک بار کما لوں، مدینہ شہر کی خاک
کبھی تو آنکھ سے چوموں میں حجرِ اسود کو
کبھی تو آنکھ میں ڈالوں، مدینہ شہر کی خاک
یہ تو جینا محال کرتے ہیں
لوگ کتنے سوال کرتے ہیں
اتنے قصے سنانے والے ہیں
آپ کو جب ہی کال کرتے ہیں
اشک سے آنکھ نم نہیں ہوتی
صرف گیلے یہ گال کرتے ہیں
لیڈر کی دعا
ابلیس مِرے دل میں وہ زندہ تمنا دے
جو غیروں کو اپنا لے اور اپنوں کو ٹرخا دے
بھاشن کے لیے دم دے اور توند کو پُھلوا دے
پایا ہے جو اوروں نے وہ مجھ کو بھی دلوا دے
پیدا دلِ ووٹر میں وہ شورشِ محشر کر
یہ امر حقیقت ہے
کہ نجس ذہنوں میں آقاؐ آ نہیں سکتے
نجس وہ پاک خاکہ بنا نہیں سکتے
یہ ان کی شرارت تو ہو سکتی ہے
ان کی ناپاک جسارت تو ہو سکتی ہے
پلید تخیل کی عبارت تو ہو سکتی ہے
خواشیں جب سنور کے آنے لگیں
حسرتیں، آہ بھر کے آنے لگیں
میں سمندر سے کر رہا تھا سوال
مجھ پہ موجیں بپھر کے آنے لگیں
موت نے کیا دکھا دئیے منظر
ہچکیاں جن سے ڈر کے آنے لگیں
کیسے اجڑے یہ لوگ بستی میں
سب ہوئے محو سوگِ ہستی میں
میں بھی مشغول نوکری میں ہوں
وہ ہے مشغول گھر گھرستی میں
شکر الحاد پر کِیا، ورنہ
مارے جاتے خدا پرستی میں
مِرے کمرے میں واحد شے نظر بھر کا اثاثہ تھی
تِری تصویر دُھندلی سی فقط زر کا اثاثہ تھی
سمٹ کے رہ گئی مجھ میں تخیل کی فراوانی
تمہاری یاد ہی گویا مِرے گھر کا اثاثہ تھی
وہ مجھ سے دور جا کر بھی مِرے ہی پاس لوٹا تھا
مِلن کی چاہ اے فوزی! مِرے سر کا اثاثہ تھی
ایسا بھی کیا سویرا
تم سویرے کے ساتھ
صرف روشنی کے ہمراہ
سارا دن
سڑکوں پر بھاگے رہو گے
پتھر کی عمارتوں میں
عشق محنت کا صلہ حد سے سوا مانگتا ہے
دل وہ مزدور ہے اجرت میں وفا مانگتا ہے
بے سبب سڑکوں پہ آوارہ سا اک ننگا بدن
کوئی دیوانہ ہے زخموں کی قبا مانگتا ہے
وہ کثافت ہے ہواؤں میں کہ دم گھٹ جائے
پھر بھی جینے کی ہر انسان دعا مانگتا ہے
تنبیہ کلام؛ توہین رسالتﷺ کرتے ہو
اے ظالم، جابر انسانو! اے جام نجس کے دیوانو
اے شمعِ ہوس کے پروانو! اے عقل وخرد سے بیگانو
اخلاق سے عاری نادانو! اے بے خبر، اے شیطانو
اے کافر، مشرک فرزانو! توہین رسالتﷺ کرتے ہو؟
اس فعلِ شنیع کا مغرب میں ڈنمارک سے آغاز ہوا
بیان در آمد مصطفیٰﷺ
حد سے فزوں جو ظلمتِ نفسِ بشر ہوئی
پہلوئے آمنہؑ سے سحر جلوہ گر ہوئی
اب جس کی کوئی شام نہیں، وہ سحر ہوئی
خوش کیوں نہ ہو خلیلؑ، دعا بار ور ہوئی
اُبھرا جو آفتاب اندھیرے ہوا ہوئے
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
ام معبد کی نظم در وصف نبیﷺ
قالت أُمِّ مَعْبَدٍ فی وصف النبیﷺ
رَأَيْتُ رَجُلًا ظَاهِرَ الوَضَأَةِ
أَبْلَجَ الوَجْهِ
حَسَنَ الخَلْقِ
لَمْ تَعِبْهُ ثُجْلَةٌ
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
بیان ام معبدؓ بر محمد مصطفیٰﷺ
آیا جو شوہرِ ام معبدؓ تھکا ہوا
برتن میں دودھ دیکھ کے حیران رہ گیا
بڑھیا نے پھر سنایا اسے سارا ماجرا
کرنے لگی بیاں وہ سراپا رسولﷺ کا
وصفِ نبیﷺ کا ایک نیا باب کھل گیا
سارا غبار شرک و معاصی کا دُھل گیا
عارفانہ کلام نعتیہ کلام
نبی کے عشق کا دل میں چراغ لے کے چلے
رہِ بہشت کا مثبت سراغ لے کے چلے
در اُنﷺ کا منبعِ بارانِ لطف و رحمت ہے
کرم کی آس پہ ہم بھی ایاغ لے کے چلے
حضورﷺ چاہیں تو ہر داغ صاف ہوجائے
ہم اپنا دامنِ دل داغ داغ لے کے چلے