اداسیوں کا مسلسل یہ دور چلنا ہے
نہ کوئی حادثہ ہونا نہ جی بہلنا ہے
وہ اور ہوں گے مِلا جن کو روشنی کا سفر
ہمیں تو بُجھتے چراغوں کے ساتھ چلنا ہے
یہ ڈھلتی عمر کے رستے بہت تھکا دیں گے
قدم قدم پہ نیا راستہ نکلنا ہے
وداع ہو گئی کہہ کر یہ خوشبوؤں کی صدا
گلاب جسموں کو اب پتھروں میں ڈھلنا ہے
کسی کا لہریں منائیں گی جشن غرقابی
پھر آج رات سمندر بہت اچھلنا ہے
مِری شکست میں مضمر ہے تیری کوتاہی
تجھے بھی میری طرح کل کو ہاتھ ملنا ہے
آہ سنبھلی
No comments:
Post a Comment