Saturday 27 August 2022

اجالا دشت جنوں میں بڑھانا پڑتا ہے

 اجالا دشت جنوں میں بڑھانا پڑتا ہے

کبھی کبھی ہمیں خیمہ جلانا پڑتا ہے

یہ مسخروں کو وظیفے یوں ہی نہیں ملتے

رئیس خود نہیں ہنستے ہنسانا پڑتا ہے

بڑی عجیب یہ مجبوریاں سماج کی ہیں

منافقوں سے تعلق نبھانا پڑتا ہے

علاوہ راہِ قلندر تمام دنیا میں

کسی بھی راہ سے گزرو زمانہ پڑتا ہے

شکستگی میں بھی کیا شان ہے عمارت کی

کہ دیکھنے کو اسے سر اٹھانا پڑتا ہے

کسی کے عیب چھپانا ثواب ہے لیکن

کبھی کبھی کوئی پردہ اٹھانا پڑتا ہے

غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے

مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے


اظہر عنایتی

No comments:

Post a Comment