Saturday, 27 August 2022

وہ جو راستے پہ بکھر گئے وہی منزلوں پہ سنور گئے

وہ جو راستے پہ بکھر گئے، وہی منزلوں پہ سنور گئے

جنہیں زندگی نے رلا دیا، وہ تو ہستے ہستے ہی مر گئے

وہ جو دھوپ میں بھی تھے چھاؤں سے، جو تھے سرد جھونکے ہواؤں کے

جو تھے لوگ پتلے وفاؤں کے، وہی لوگ جانے کدھر گئے

نہ کسی کے دل میں جگہ ملی، نہ کسی سرائے پناہ ملی

جو نہ کوئی ہم کو وفا ملی، تو لٹے لٹائے ہی گھر گئے

وہ گئے زمانے کہ عشق تھا، وہ گئے زمانے کہ ہجر تھا

کبھی آپ دل میں پذیرتھے، ابھی آپ دل سے اتر گئے

وہ سرور و کیف بھی چھن گیا، وہ متاعِ جان بھی لٹ گئی

وہ سکون دل کا چلا گیا، سبھی درد دل میں ٹھہر گئے

وہ نزاکتیں مجھے لے اڑیں، تری عادتیں مجھے لے اڑیں

کبھی ان کو دیکھا تو جی اٹھے، کبھی اِن کو دیکھا تو مر گئے

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، وہ معاہدہ تھا جو پیار کا

مجھے عہد سارےہی یاد ہیں، وہ کہ آپ جن سے مکر گئے

وہ جو تیرے رخ پہ حجاب تھا، وہ جو نازنیں کا نقاب تھا

وہ گرا تو روح مچل گئی، وہ گرا تو جذبے بپھر گئے

اُسی ایک پل میں گزار لی، شبِ وصل بھی شبِ ہجر بھی

وہ جو ایک پل کے لیے کبھی، مرے پاس آکے گزر گئے


رئیس امروہوی


No comments:

Post a Comment