Saturday 27 August 2022

ہے اب وہ بھی دستِ خریدار میں

 ہے اب وہ بھی دستِ خریدار میں

خدا کی دُکاں بھی ہے بازار میں

زمیں آج وہ مانگنے آئی ہے

جو اُس کی امانت ہے بیمار میں

خزاں کا بھی ایسا نہیں کوئی زور

جو کھو جاؤں پتّوں کے انبار میں

نہ شیطان کو اب کوئی ضد نہیں

نہ اب حوصلہ ہے گنہ گار میں

فقط ناتوانی کا ہے اعتراف

یہ نرمی جو آئی ہے گُفتار میں

اسی کے اشارے کو دی ہے زباں

وہی ہے پسِ پردہ انکار میں

غرض یہ کہ ایمان سے بھی گئے

سمجھدار لوگوں کی تکرار میں


شارق کیفی

No comments:

Post a Comment