دل ہے وابستہ مِرا حسرت ناکام کے ساتھ
تازہ ہو جاتے ہیں سب زخم تِرے نام کے ساتھ
اس نے ہر حلقِ تمنا پہ چلایا خنجر
یوں ہے پیکار مِری گردشِ ایام کے ساتھ
دردِ الفت مِرا کرتا ہے ترنم ریزی
کرنیں رو رو کے گلے ملتی ہیں جب شام کے ساتھ
سنگ بن جاتا اگر میں بھی برائے عشرت
زندگی پھر تو گزرتی بڑے آرام کے ساتھ
ہر جہت سے رہا دنیا میں سراسر ناکام
جی رہا ہوں میں خوشی سے اسی الزام کے ساتھ
راہیٔ زیست اگر عزمِ سفر ہے پُر جوش
پھر تو وابستہ ہے منزل تِرے ہر گام کے ساتھ
یہ بنا دیتا ہے انساں کو مکمل پتھر
یوں رہی دہر میں نفرت مجھے آرام کے ساتھ
آتشِ غم نے تپا کر کیا کندن مجھ کو
اسی باعث تو جلی عشق ہے آلام کے ساتھ
جلی امروہوی
No comments:
Post a Comment