Saturday 27 August 2022

زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد

 زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد

مل گیا وہ پھر کہیں دل کے ٹھہر جانے کے بعد

میں نے وہ لمحہ پکڑنے میں کہاں تاخیر کی

سوچتا رہتا ہوں اب اس کے گزر جانے کے بعد

کیسا اور کب سے تعلق تھا ہمارا کیا کہوں؟

کچھ نہیں کہنے کو اب اس کے مُکر جانے کے بعد

مل رہا ہے صبح کے تارے سے جاتا ماہتاب

رات کے تاریک زینے سے اتر جانے کے بعد

کیا کروں آخر چلانا ہے مجھے کارِ جہاں

جمع خود کو کر ہی لیتا ہوں بکھر جانے کے بعد

زخم اک ایسا ہے جس پر کام اب کرتا نہیں

وقت کا مرہم ذرا سا کام کر جانے کے بعد

چپ ہیں یوں چیزیں کہ کھل کر سانس بھی لیتی نہیں

جیسے اک صدمے کی حالت میں ہوں ڈر جانے کے بعد

ہیں نواحِ دل میں شاہیں کچھ نشیبی بستیاں

ڈوبتا رہتا ہوں ان میں پانی بھر جانے کے بعد


جاوید شاہین

No comments:

Post a Comment