Saturday 27 August 2022

رہی جبیں نہ رہا سنگِ آستاں باقی

 رہی جبیں نہ رہا سنگِ آستاں باقی

جنوں کی آگ بجھی رہ گیا دھواں باقی

میں کس کو حالِ پریشاں سناؤں کون سنے

کہاں ہے شہر میں اب کوئی ہمزباں باقی

یہ ساعتیں ہیں غنیمت گزار لیں ہمراہ

نہ پھر زمین نہ ہو گا، یہ آسماں باقی

نقوشِ دشت کی مانند مٹ گئے لیکن

ہماری یاد رہی زیبِ داستاں باقی

اسی امید میں سُلجھا رہا ہوں میں گُتھی

کوئی تو رشتہ بچا ہو گا درمیاں باقی

میں خاک چھان رہا ہوں یہ جاننے کے لیے

کہاں کہاں میں لُٹا ہوں، کہاں کہاں باقی

قدیم لہجے میں لکھتا ہوں اس لیے میں سراج

کہ جِدتوں میں بھی رہ جائے یہ زباں باقی


عفیف سراج

No comments:

Post a Comment