خط اس نے زمانہ ہوا لکھا بھی نہیں ہے
وہ روٹھ گیا مجھ سے ہو ایسا بھی نہیں ہے
کیوں تلخ بتایا ہے اسے حضرت واعظ؟
جس مے کو کبھی آپ نے چکھا بھی نہیں ہے
اچھا ہوا فنکاروں نے دوکان بڑھا دی
اس شہر میں اب دیدۂ بینا بھی نہیں ہے
جاتے ہیں کہاں اٹھ کے ذرا بیٹھیے صاحب
جی بھر کے ابھی آپ کو دیکھا بھی نہیں ہے
ہر راہ میں روشن ہیں چراغوں کی قطاریں
یہ غور طلب ہے کہ اجالا بھی نہیں ہے
احباب مرے جس طرح پیش آئے ہیں مجھ سے
دشمن کے لیے میں نے تو سوچا بھی نہیں ہے
یہ حادثے جائیں گے کہاں چھوڑ کے مجھ کو
ان کا تو کوئی اور ٹھکانا بھی نہیں ہے
ناظم جعفری
No comments:
Post a Comment