عشق محنت کا صلہ حد سے سوا مانگتا ہے
دل وہ مزدور ہے اجرت میں وفا مانگتا ہے
بے سبب سڑکوں پہ آوارہ سا اک ننگا بدن
کوئی دیوانہ ہے زخموں کی قبا مانگتا ہے
وہ کثافت ہے ہواؤں میں کہ دم گھٹ جائے
پھر بھی جینے کی ہر انسان دعا مانگتا ہے
تیرے اس فعل کا مفہوم سمجھنا مشکل
تُو ہے مختار مگر میری رضا مانگتا ہے
ہم قلندر کی نظر اور کہیں ہوتی ہے
ہم نہیں مانگتے وہ شے جو گدا مانگتا ہے
گھیر رکھا ہے اسے وقت کے فرعونوں نے
راہ پانی میں بنا دے وہ عصا مانگتا ہے
پاؤں بڑھتے نہیں کچلے ہوئے رستوں کی طرف
تیرا مقصود!! الگ اپنی دِشا مانگتا ہے
مقصود انور
No comments:
Post a Comment