تم فسانہ نہیں حقیقت ہو
میرے دل کی تمہی تو چاہت ہو
کیا بتاؤں میں زندگی کا حساب
تم خوشی ہو، تمہی تو وحشت ہو
جب بھی بولوں تو خوں نکلتا ہے
ہجر میں یوں نہ تیری حالت ہو
تیری دہلیز کو نہ چومے جو
ایسی خوشیوں پہ یار لعنت ہو
سچ کہوں آئینہ بھی جھوٹا ہے
تم تو چندا سے خوبصورت ہو
پھول گلشن میں جو بھی کھلتے ہیں
سارے پھولوں کی تم ہی رنگت ہو
میں گھِرا ہوں مصیبتوں میں پر
تم پہ نازل کبھی نہ شامت ہو
دل کی وحشت کو آگ لگ جائے
مجھ کو حاصل جو تیری قربت ہو
جس کو پی کر سرور ملتا ہے
تم لطافت کی ایسی شربت ہو
ہے یہی میری آخری خواہش
تیری بانہوں میں میری تربت ہو
ساجد انجم دربھنگوی
No comments:
Post a Comment