محبت سے بھرے الفاظ کو پتوار کر لوں گا
تِرے خط کو بنا کر ناؤ، دریا پار کر لوں گا
محبت کے سفر میں دونوں کی یکساں ضرورت ہے
اگر ٹوٹا یہ دل، آنکھوں کو بھی مسمار کر لوں گا
بڑی عجلت میں ہوں قدموں کو زحمت کون دیتا ہے
بلندی کے لیے زینے کو میں خودکار کر لوں گا
تمہاری اونچی نیچی رہگزر پہ حوصلہ ٹوٹا
یہ سوچا تھا کہ میں یہ راہ بھی ہموار کر لوں گا
وہاں پلکوں کی چلمن کو اٹھانا ہو گیا مشکل
یہ سوچا تھا کہ میں تجھ سے نگاہیں چار کر لوں گا
لگاتا ہی رہوں گا میں ہمہ دم عشق کا نعرہ
میں اس دل کو تِرے غم کا علمبردار کر لوں گا
تِرا دستِ ہنر لگ جائے تو تشکیل پا جاؤں
اناڑی ہوں میں خود کو چاک پر بیکار کر لوں گا
غزل کہتی ہے یہ مقصود میرا ہو نہیں سکتا
ادب کہتا ہے اس پاگل کو اپنا یار کر لوں گا
مقصود انور
No comments:
Post a Comment