Thursday 25 August 2022

بعد مدت کے تری یاد کے بادل برسے

 بعد مدت کے تری یاد کے بادل برسے

وہ بھی ایسے کہ کئی روز مسلسل برسے

منتظر اور بھی صحرا ہیں اسی بادل کے

صرف تجھ پر ہی بھلا کیسے یہ ہر پل برسے

پیاس اس شہر کی بُجھنے کا یہی رستہ ہے

بن کے بادل کسی درویش کی چھاگل برسے

لگ گئی کس کی نظر شہر نگاراں کو مِرے

اب تو ہر شام یہاں وحشتِ مقتل برسے

کب کی پیاسی ہے زمیں یہ بھی نظر میں رکھے

کہہ دو بادل سے ذرا دیر مسلسل برسے

لب کشا ہو کہ مہک اٹھے فضا کا یہ سکوت

منتظر کب سے سماعت ہے کہ صندل برسے


جاوید نسیمی

No comments:

Post a Comment