عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر امام حسینؑ
ذکرِ شبیرؑ ہے آسان یہی مشکل ہے
کیسے لکھے کوئی قرآن بڑی مشکل ہے
فکرِ شبیرؑ کا عرفان ابھی مشکل ہے
سوچے جس رخ سے بھی انسان نئی مشکل ہے
سرحدِ ذکر جو عرفان کی سرحد ٹھہرے
ذکرِ فرزندِ علیؑ ذکرِ محمدﷺ ٹھہرے
٭
مبتدا عظمتِ انساں ہے خبر ہے شبیرؑ
نور ہے یعنی محمدﷺ سا بشر ہے شبیرؑ
سورۂ فجر کی میزانِ سحر ہے شبیرؑ
ذہنِ انساں میں اجالوں کا سفر ہے شبیرؑ
کاروانِ بشریت کی یہی منزل ہے
کربلا آج بھی ماضی نہیں مستقبل ہے
٭
جب ہوئی سیدِ لولاکﷺ سے خالی دنیا
بن گئی دین سے دنیا کی سوالی دنیا
جہل نے ظلم کے سانچوں میں جو ڈھالی دنیا
بیتِ حیدرؑ میں سمٹ آئی مثالی دنیا
یہ وہ دنیا تھی جو ہر ظلم سہے جاتی تھی
کشتیٔ نوحؑ تھی، طوفاں میں بہے جاتی تھی
٭
جرم کے بوجھ تلے دب کے حکومت کا ضمیر
تھا مصر عدل بنے، ظلم کی طاقت کا اسیر
مجتمع ظلم کے مرکز پہ تھا انبوہِ کثیر
مرکزِ عدل پہ شبیرؑ تھے، تنہا شبیرؑ
مرکزِ عدل سے بیعت پہ جو اصرار رہا
جیسا اصرار رہا، ویسا ہی انکار رہا
٭
باب اصرار کُھلا تھا کہ کُھلا بابِ عمل
دل میں انگڑائیاں لینے لگا ارمانِ اجل
دیکھ کر سبطِ پیمبرﷺ کے ارادے کو اٹل
شام کو بڑھ کر مدینے نے صدا دی کہ سنبھل
خیر اور شر میں تعاون کو کوئی طور نہیں
یہ حسینؑ ابنِ علیؑ ہے یہ کوئی اور نہیں
٭
طاقتِ شر کا وہ اصرار، وہ انکار کی شان
وہ مدینے کا سفر اور وہ سفر کا سامان
تُربتِ جدؐ پہ نواسے کا صریحی اعلان
اب اگر زندگیٔ حق کا یہی ہے عنوان
رنگ تصویرِ شہادت میں لہو سے بھر دو
آؤ تلوارو! میرے جسم کے ٹکڑے کر دو
سردار نقوی
No comments:
Post a Comment