Friday 26 August 2022

دل ہے کہ دیا ہے کیا ہے آخر

 دل ہے کہ دِیا ہے، کیا ہے آخر

کچھ جل تو رہا ہے، کیا ہے آخر

شاید یہ کمال ہجر کا ہو

کیوں درد اٹھا ہے، کیا ہے آخر

کچھ بھی تو رقیب میں نہیں ہے

کیوں اس کا ہوا ہے، کیا ہے آخر

زنجیر ہے، دام ہے، کہ شب ہے

وہ زُلف گھٹا ہے، کیا ہے آخر

دیکھو تو سہی کبھی مِرا دل

یہ کوئی بلا ہے کیا ہے آخر

یہ درد ہے، دُکھ ہے، غم ہے کوئی

مجھ کو جو ملا ہے کیا ہے آخر

قصہ تو نوید کا ہے کوئی

ہم نے بھی سنا ہے، کیا ہے آخر


نوید ناظم

No comments:

Post a Comment