ہم ایسے رندوں سے دوستی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
شراب خانے میں شیخ بھی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
ہم ایک ایسی بھرشٹ دنیا میں اپنا جیون بتا رہے ہیں
جہاں جہالت ہی آگہی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
بُتانِ مغرب کی بے حیائی نئے کرشمے دکھا رہی ہے
درونِ مشرق برہنگی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
مجھے تو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ کون ہے اور کہاں کی ہے وہ
وہ میرے بارے میں جانتی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
ہم اس کو برسوں سے چاہتے ہیں، مگر وہ لڑکی یہ کہہ رہی ہے
تمہاری چاہت نئی نئی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
ہم اس کا دل اپنے دل کے بدلے میں مانگتے ہیں، تو کیا غلط ہے
اسے فقیروں سے دشمنی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
وہ دھیرے دھیرے نقاب رُخ سے ہٹا رہی ہے، لجا رہی ہے
ہماری حالت میں بہتری ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
ہم اس کی آنکھوں میں ساری دنیا کو ایک لمحے میں دیکھتے ہیں
وہ ایسا کاجل لگا رہی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
ہم اپنا دُکھڑا سنا رہے ہیں، وہ رو رہی ہے، رلا رہی ہے
ہماری آنکھوں میں بھی نمی ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
سحر کے اشعار پڑھتے پڑھتے ہم ایک اُلجھن میں مبتلا ہیں
ہے آپ بیتی کہ شاعری ہے، تو سچ بتاؤ عجیب ہے نا
سحر بلرام پوری
غلام جیلانی سحر
No comments:
Post a Comment