منزل کو زرا جان مِرے دیس کے راہی
دریا نہ بہے حد میں تو کرتا ہے تباہی
اب طے ہے کہ ہم دور رہیں زندہ رہیں گے
اب دیس میں پھیلی ہے وباؤں کی سیاہی
ابلیس کا حملہ یہ ہمیں ڈر میں ہے درپیش
اب رن میں نہیں جنگ ہمیں گھر میں ہے درپیش
پر کاٹ کے کس طرح سے پرواز کرو گے
جب کوئی نہ ہو گا کسے ہمراز کرو گے
محتاط رویے کو تم اپناؤ گے کب تک
مٹ جائے گا سب کچھ تو پھر آغاز کرو گے
اک جان کے دم سے ہی جہاں باقی ہے سارا
یہ جاں ہی نہ ہو کون ہے پھر تیرا ہمارا
یہ دیس ہمیں جان سے پیارا ہے رہے گا
یہ چاند ہے اپنا یہ ستارہ ہے رہے گا
کچھ اپنے سبب آنچ نہ اس پر کبھی آئے
جس جس کو بھی یہ گھر میں پکارا ہے رہے گا
ہو وار کرونا کا یا دشمن کی ہو للکار
اس قوم کی ہمت کے ہے آگے سبھی بیکار
یہ طے ہے کہ ہر ایک نے مرنا ہے بہرحال
پر خون سے اپنے نہ کرونا کا ہو منہ لال
محتاط رہو، زندہ رہو، جیتے رہو تم
رستے میں کرونا کے بنے پھرتے رہو ڈھال
اٹھو کہ نہ گھبراؤ مِرے دیس کے لوگو
اس وار سے ٹکراؤ مِرے دیس کے لوگو
مزمل عباس شجر
No comments:
Post a Comment