اشک آنکھوں میں چھپایا نہیں جاتا
بارِ غم بھی تو اٹھایا نہیں جاتا
یاد ہیں ظلم سبھی ان کے مجھے پر
خون اپنوں کا گرایا نہیں جاتا
یہ کسے سونپ دیا ہم نے چمن اب
پھول تک جس سے بچایا نہیں جاتا
روشنی گھر میں کروں اپنے زرا سی
اک دِیا مجھ سے جلایا نہیں جاتا
آج ظالم کے لیے نرم ہے منصف
سچ زباں پر تبھی لایا نہیں جاتا
ابرار ابہام
No comments:
Post a Comment