Thursday, 25 August 2022

خون ناحق کا سمندر نہیں دیکھا جاتا

 خونِ نا حق کا سمندر نہیں دیکھا جاتا

اب تباہی کا یہ منظر نہیں دیکھا جاتا

جب سے ہے قید حِصاروں میں تکبر کے انا

خود سے اونچا کوئی پیکر نہیں دیکھا جاتا

جانے کب کون ہمیں دیش نکالا دے دے

سر پہ لٹکا ہوا خنجر نہیں دیکھا جاتا

جو ذریعہ تھا شکم سیریٔ انساں کا سدا

پیٹ پر باندھے ہے پتھر نہیں دیکھا جاتا

آج انساں ہے شکنجے میں حسد کے ایسے

ٹوٹنے پر ہیں کئی گھر نہیں دیکھا جاتا

تیری آزردہ سی مسکان سے بیکل ہے شفا

ایک طوفاں تِرے اندر نہیں دیکھا جاتا


شفا کجگاؤنوی

No comments:

Post a Comment