حسیناؤں کو مشورہ
حسینو! اگر تم کو ہے پاس عزت
تو سن لو سناتا ہوں شاعر کی فطرت
نہ مانو گی میری تو پُھوٹے گی قسمت
رہے گی مقدر میں ذِلت ہی ذِلت
جو اسرار کہتا ہے وہ مان لو تم
یہ کیسے فریبی ہیں یہ جان لو تم
یہ زُلفوں کی چھاؤں گھنی چاہتے ہیں
یہ پلکوں کی چلمن تنی چاہتے ہیں
یہ ہونٹوں کی ہر دم ہنی چاہتے ہیں
یہ نازک بدن کُندنی چاہتے ہیں
تخیل میں گنگ و جمن دیکھتے ہیں
حسینوں کا کومل بدن دیکھتے ہیں
در و بام پر ان کی رہتی نظر ہے
ادھر ہے جو لٹ بٹ تو گٹ پٹ ادھر ہے
ہے ان کی جبیں اور حسینوں کا در ہے
کہاں جوتے چپل کا ان پر اثر ہے
یہ رُسوا بھی کر کے چہیتے رہے ہیں
حسینوں پہ مر مر کے جیتے رہے ہیں
جہاں مل گئی ان کو کوئی حسینہ
تو آیا جبیں پر ہوس کا پسینہ
سمجھ لو کہ اچھا نہیں ہے قرینہ
خدا ہی بچائے اب اس کا سفینہ
یہ غیروں کی بیوی پہ ڈالیں کمندیں
وہ چپل بھی ماریں تو یہ جان و تن دیں
کسی سے یہ کہتے ہیں نازک کلی ہو
مِرے دل کی رانی ہو، نازوں پلی ہو
مِری آرزوؤں کی روشن گلی ہو
وہیں ہیں بہاریں جہاں تم چلی ہو
یہ سب چاپلوسی کی باتیں بنا کر
انہیں موم کرتے ہیں ٹسوے بہا کر
دل و ذہن کے یہ بڑے ہی فتوری
حسینوں کے آگے کریں جی حضوری
مگر ان کو کافر بھی کہنا ضروری
عجب ذات ان کی نہ ناری نہ نوری
سنا کر محبت کا جُھوٹا فسانہ
یہ بلبل پھنسانے کو رکھتے ہیں دانہ
سدا ان کی تخیل جعلی رہی ہے
ہمیشہ سے جیب ان کی خالی رہے ہے
خودی ان کی ہر دم سوالی رہی ہے
ہر اک بات ان کی نرالی رہی ہے
تمہاری اداؤں پہ بس جان دیں گے
لگے گی اگر بھوک تو پان دیں گے
یہ شاعر ہیں، شادی کے قائل نہیں ہیں
یہ عاشق ہیں دل ان کے گھائل نہیں ہیں
یہ مجنوں ہیں لیلیٰ پہ مائل نہیں ہیں
یہ گھڑیاں ہیں وہ جن میں ڈائل نہیں ہیں
حسینوں کی ہر دم بناتے ہیں درگت
ازل سے ہی چُلبلی ان کی فطرت
بڑھاپے میں چکنی ڈلی ڈھونڈتے ہیں
چمن میں یہ نورس کلی ڈھونڈتے ہیں
یہ مورت کوئی من چلی ڈھونڈتے ہیں
حسینوں کی ہر دم گلی ڈھونڈتے ہیں
لگاتے ہیں اس طرح گلیوں کا چکر
کہ پیڑوں پہ جیسے اُچھلتے ہوں بندر
یہ مکڑے ہیں خود، ان کے اشعار جالے
وہ مکڑا جو مکھی کو جھٹ سے پھنسا لے
ہنی چوس لے اور کچومر نکالے
کرے بعد اس کے خدا کے حوالے
یہی حال ان کا ہمیشہ رہا ہے
یہی ان کا دیرینہ پیشہ رہا ہے
یہ شرم و حیا کو جفا مانتے ہیں
جفا کو یہ حسن و ادا مانتے ہیں
یہ زُلفوں کو کالی گھٹا مانتے ہیں
فلک کو یہ اُلٹا توا مانتے ہیں
جو سمجھائیے تو بگڑ جائیں گے یہ
ندامت کے بدلے اُکھڑ جائیں گے یہ
یہ کرتے نہیں کچھ کماتے نہیں ہیں
یہ خود کھا لیں گے کھلاتے نہیں ہیں
یہ بچوں کو اپنے پڑھاتے نہیں ہیں
یہ کمروں کو اپنے سجاتے نہیں ہیں
صفائی کے در پر یہ جاتے نہیں ہیں
یہ شاعر مہینوں نہاتے نہیں ہیں
جو مہمان آئے کوئی ان کے گھر پر
تو یہ لے کے بیٹھیں گے شعروں کے دفتر
سنائیں گے اشعار پہلے تو گا کر
پلائیں گے تب چائے تیوری چڑھا کر
اُدھار آئے گی چائے خانوں سے وہ بھی
کہ رہتی ہے گھر میں نہ چینی نہ پتی
اگر تم کبھی ان کی بیگم بنو گی
کوئی بات ان سے مچل کر کہو گی
یہ کہہ دیں گے مطلع غزل کا سُنو گی
خدا کی قسم سر کو اپنے دُھنو گی
سُنا کر غزل بور کرتے رہیں گے
سنیں گے نہ کچھ شور کرتے رہیں گے
اُڑاتے رہے ہیں یہ ذہنی غبارا
نہیں دال روٹی کا گرچہ سہارا
کسی رُخ پہ تِل کا یہ کر کے نظارا
یہ بخشیں سمر قند و طوس و بخارا
بخارا کے مالک یہ آئے کہاں سے
ذرا کوئی پوچھے تو شاعر میاں سے
حسینو! تمہیں مشورہ ہے ہمارا
لگاؤ نہ دل شاعروں سے خدارا
نہیں تو اُٹھاتی رہو گی خسارا
یہ ہے عقل مندوں کو کافی اشارا
سدا مبتلا ہیں یہ ذہنی خلل میں
نہیں تال میل ان کے قول و عمل میں
انہیں دیکھ کر مُسکراؤ نہ ہرگز
ندیدوں سے نظریں لڑاؤ نہ ہرگز
غزل ان کی تم گُنگناؤ نہ ہر گز
کبھی ان کے جھانسے میں آؤ نہ ہر گز
یہ بھونرے ہیں کلیوں کا رس چُوستے ہیں
گُلوں کو بھی مثلِ مگس چُوستے ہیں
اسرار جامعی
No comments:
Post a Comment