خواشیں جب سنور کے آنے لگیں
حسرتیں، آہ بھر کے آنے لگیں
میں سمندر سے کر رہا تھا سوال
مجھ پہ موجیں بپھر کے آنے لگیں
موت نے کیا دکھا دئیے منظر
ہچکیاں جن سے ڈر کے آنے لگیں
حشر کی جو علامتیں ہیں سبھی
سامنے اب نظر کے آنے لگیں
ذہن و دل کو جونہی کِیا خالی
ساری یادیں اُبھر کے آنے لگیں
مشکلیں جو سمٹ چکیں تھیں کبھی
اب وہ آگے، پسر کے آنے لگیں
راستے کی تھکاوٹیں مسعود
ساتھ رختِ سفر کے آنے لگیں
مسعود قاضی
No comments:
Post a Comment