خون کی حِدتوں میں اُتری ہے
اک اداسی رگوں میں اتری ہے
کیا خبر ہے کہ دن کہاں بچھڑا
رات کب کھڑکیوں میں اتری ہے
جو مسافت بھی پاؤں سے الجھی
بے جہت راستوں میں اتری ہے
پھر جزیرے نگل گیا ساگر
پھر زمیں پانیوں میں اتری ہے
اب کے رفعت! ہماری بینائی
پھیلتے فاصلوں میں اتری ہے
رفعت وحید
No comments:
Post a Comment