Saturday, 27 August 2022

کیا خبر کب سے پیاسا تھا صحرا

 کیا خبر کب سے پیاسا تھا صحرا

سارے دریا کو پی گیا صحرا

لوگ پگڈنڈیوں میں کھوئے رہے

مجھ کو رستہ دکھا گیا صحرا

دھوپ نے کیا کیا سلوک اس سے

جیسے دھرتی پہ بوجھ تھا صحرا

بڑھتی آتی تھی موج دریا کی

میں نے گھر میں بلا لیا صحرا

جانے کس شخص کا مقدر ہے

دھوپ میں تپتا بے صدا صحرا

کھو کے اپنا وجود اندھیرے میں

رات کتنا اداس تھا صحرا

ذہن کو وادیاں اٹھاتے پھریں

آنکھ میں آ کے بس گیا صحرا

میرے قدموں کو چومنے کے لئے

رستے رستے سے جا ملا صحرا

میں سمندر کو گھر میں لے آیا

میرے در پر پڑا رہا صحرا

میرا اس میں بکھرنا تھا عابد

پھر مجھے ڈھونڈھتا پھرا صحرا


عابد عالمی

No comments:

Post a Comment