Thursday, 25 August 2022

نرم لہجے میں تحمل سے ذرا بات کرو

 نرم لہجے میں تحمل سے ذرا بات کرو

پھر بصد شوق سرِ عام مجھے مات کرو

یا نثار آج کرو مجھ پہ تمام اپنے ہُنر

یا نظر بند مِرے سارے کمالات کرو

میں روایات سے باغی تو نہیں ہوں لیکن

تم سے ممکن ہو تو تبدیل خیالات کرو

ایک مدت سے مِرے دل کا نگر ہے وِیراں

آؤ، اس دشت پہ تم پھولوں کی برسات کرو

فصل اجالوں کی سیہ بخت زمیں اُگلے گی

زر نگار اپنے ذرا کشف و کرامات کرو

اس طرح مِل کے بچھڑنا تو قیامت ہو گا

مشتعل تم نہ مِری جاں مِرے جذبات کرو

بے نیازی تو ملا کرتی ہے دنیا سے خیال

تم کسی طور نہ تجدیدِ غمِ ذات کرو


رفیق خیال

No comments:

Post a Comment