اس کی چاہت میں عجب دل کو سکوں ہے یوں ہے
وہ جو کہتا تھا محبت کو کہ؛ یوں ہے، یوں ہے
یہ جو ہم ایک فلک سر پہ لیے پھرتے ہیں
اس کی بنیاد نہ دامن میں ستوں ہے، یوں ہے
ورنہ، میں کب تھا کسی جادو گری کا قائل
یہ تو اس آنکھ نے کھولا کہ فسُوں ہے، یوں ہے
اب کسے دیکھ کے میں دل کے ارادے باندھوں
اب توں آنکھوں میں کوئی خواب نہ خوں ہے، یوں ہے
اس جہاں ساز کی پہچان کہاں حرف مِرے
جس کا اک رنگِ سخن کُن فیکوں ہے، یوں ہے
میں حقیقت میں کبھی جاگوں تو یہ غور کروں
زندگی میرے لیے خواب سی کیوں ہے، یوں ہے
اور کیا اہلِ ہنر،۔ اہلِ سخن اب کے کریں
بیچ دینے کو یہی ایک جنوں ہے، یوں ہے
اپنی حالت بھی عجب ایک تماشا ہے ظفر
تن سلامت ہے، مگر حال زبوں ہے یوں ہے
ظفر اقبال(چونیاں والے)
No comments:
Post a Comment